وفات کا ۵۹ھ میں ہونابھی مختلف فیہٖ ہے۔
دوسرا قول ان کی وفات کے متعلق ۶۲ھ میں وفات ہونے کابھی ہے اور اس بات کی تائیدکہ حضرت امِ سلمہؓ کی وفات ۵۹ھ میں نہیں ہوئی’’ مسلم شریف‘‘ کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس سے خلافتِ عبداللہ بن زبیر ؓ میں حضرت امِ سلمہؓ کی موجودگی ثابت ہوتی ہے۔
۱۰۔دسویں محرم کو اہتمام کر کے لازمی طور پر قبور پرپانی چھڑکنا یا مٹی ڈالنا یا گارے سے لیپنا: یہ کام اگرچہ فی نفسہٖ جائز ہیںا ور ضرورت کے وقت اگرقبور پرمٹی ڈال دی جائے یامٹی کے گارے سے اس کولیپ دیاجائے توکچھ حرج نہیں ہے۔ ’’درمختار‘‘ میں ہے: وتطیین القبور لا یکرہ في المختار۔ مگر ان کاموں کے لیے دس محرم ہی کو مقرر کرنا اور اس تاریخ پر ضرور ہی ان کاموں کاکرنا، چاہے قبور پرمٹی وغیرہ ڈالنے کی ضرورت بھی نہ ہو، مگرلوگوں کی دیکھا دیکھی اس تاریخ میں یہ کام ضرور کیے جاتے ہیں، یہ محض ایک رسم اور بدعت ہے۔ شریعت نے ان کاموں کے لیے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی جب ضرورت ہو تو ضرورت کے موافق قبور کو درست کیا جاسکتاہے، اس کی اجازت ہے۔
محرم کے ایام میں خاص طور پراور بعض مرتبہ دوسرے دنوں میں بھی لوگ قبور پرغلہ دانہ وغیرہ ڈالتے ہیں حالاں کہ شریعت میں اس کا کوئی حکم نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں اناج کی بے ادبی ہوتی ہے، اوربعض مرتبہ قبرپرڈالی ہوئی چیز کواُٹھانے کے لیے جانورآجاتے ہیں اور وہ قبور کی بے ادبی کرتے ہیں، تو اب غور سے کام لیاجائے کہ قبور کے احترام کے خلاف یہ کام کیسے صحیح ہوگا؟ غور درکارہے ۔
اب آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام شر و فتن اور آفاتِ زمانہ سے محفوظ رکھے اور تمام بدعات سے پرہیز کرنے اور اتباعِ سنت کی توفیق بخشے۔ آمین!
بحرمۃ سید المرسلین صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ
وعلٰی آلِہٖ وأصحابہٖ أجمعین۔