اور صدقہ وہدیہ دونوں نیت مذکورہ کے منافی ہیں۔ مثلاً: اگر خود حضرت ؒکسی کو کچھ صدقہ دیتے تو کیا آپ کا مقصود دُنیا ہوتی یا محض ثواب ہوتا، آپ کی شان تو بہت ارفع ہے، ادنیٰ درجہ کا اخلاص بھی کسی کو ہوگا وہ طاعت میں دنیا کو مقصود نہیں بنا سکتا، یہ تو صدقہ کے پہلو میں نظر تھی۔ اب ہدیہ کے پہلو کو دیکھ لیا جاوے، اگر حضرت ؒ زندہ ہوتے اور آپ کی خدمت میں کوئی ہدیہ پیش کرتا تو کیا آپ سے دنیا کا کوئی کام نکالنے کی نیت سے ہوتا یا محض محبت اور حضرت کا دل خوش کرنے کے لیے ہوتا؟ پھر اب اس نیت کو کیوں بدلا جاتا ہے اور اس نیت کے ہوتے ہوئے حضرت ؒ کے ساتھ محبت وخلوص کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟
امر چہارم: اس عمل کی ہیئت:بجائے مساکین کے اپنے گھر والوں کو یا اغنیا کو حصّہ تقسیم کیا جاتا ہے جس سے صاف شبہ ہوتا ہے کہ ایصالِ ثواب مقصود ہی نہیں محض خاص ہیئت کو اغراضِ مخصوصہ میں دخیل ہونے میں کافی سمجھا جاتا ہے، خاص تعینّات مثل تخصیص اَطعمہ و تخصیص قدرِ فلوس یا روپیوں کو ضروری سمجھتے ہیں جن کا اولاً بے اصل ہونا اور ثانیاً مزاحمِ اصولِ شرعیہ ہونا ظاہر ہے۔ بعضے اُن اطعمہ کے احترام میں اتنا مبالغہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی چیز کا اس سے عشیر بھی احترام نہیں کرتے، کیا اس کو غلونہ کہا جاوے گا؟ یہ تفریطات تو عوام کی تھیں۔
امرپنجم: اس امر میں بعض خواص کی ذلت: بعض مشتغلین بالباطن اس عمل کے امتثال سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان حضرات کی ارواح ہم سے خوش ہو کر مقاصدِ سلوک میں امداد کریں گی اور فیوض باطنی پہنچاویں گی سو اس میں بھی مثل امر دوم کے محذور اعتقاد استقلال فی التصرف کا لازم ہے اور اس میں جو تاویلیں محتمل ہیں اس کی تحقیق ’’تتمّہ ثانیہ امداد الفتاویٰ :۸- ۱۳‘‘ میں خوب کردی گئی ہے جو قابلِ ملاحظہ ہے۔ اس امر پنجم اور امر دوم میں بجز اس کے کہ وہاں مقاصدِ جسمی اور یہاں روحی ہیں، اعتقادی حالت میں کچھ تفاوت نہیں جو اصل منشا ہے احتیاط کا۔
رفعِ شبہ:اس سے اصل عمل پر انکار کا گمان نہ کیا جاوے۔ اگر کوئی مخلص عقیدہ بھی درست، اور نہ عمل کو لازم سمجھے، نہ اس کی کسی قید کو، نہ حضرت کو متصرف بلا تخلّف قرار دے، نہ تاریخ کی تعیین کرے، نہ اَطعمہ وغیرہ کی اور مقصود صرف