طریقہ پرکریں جس کی تعلیم ہم کو صاحبِ وحی رسول اللہﷺ نے فرمائی ہے۔
فائدہ:قبل ازاسلام زمانہ ٔجاہلیت میں بھی محرم الحرام ان چار مہینوں میں شمار ہوتاتھا جن کے احترام کی وجہ سے مشرکینِ عرب اپنی خانہ جنگیوں کو بند کردیا کرتے تھے، تو اس ماہِ محرم کی حرمت و عظمت قدیم الایام سے چلی آتی ہے اور اس ماہ کوکفار عرب بھی محترم سمجھتے تھے۔ ابتدائے اسلام میں اسلام نے بھی اس مہینہ کے احترام کے باعث اس کے اندر قتال کے ممنوع ہونے کوباقی رکھا۔ چناں چہ آیت قرآنیہ: {یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِط قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌط} 2میں اَشہُرِحرم کے اندر جن میں محر م کا مہینہ بھی شامل ہے قتال کرنے کو گناہِ کبیرہ بتلایا گیا ہے، مگر باتفاق امت حرمتِ قتال کا یہ حکم عموماتِ قرآنیہ سے بعد میں منسوخ ہوگیا اور اب ان مہینوں میں قتال جائز ہے۔ اگرچہ اب بھی افضل یہی ہے کہ ان مہینوں میں قتال کی ابتدا نہ کی جائے ۔ 3
لیکن اس نسخ سے اصل مسئلہ تعظیمِ محرم پرکوئی اثرنہیں پڑتااس لیے کہ حرمتِ قتال علت نہیں ہے ماہِ محرم کے احترام کی بلکہ ماہِ محرم کے احترام کا ایک خارجی اثر حرمتِ قتال بھی تھا۔ کسی اثرکے فوت ہوجانے سے مؤثر کا فوت ہونا لازم نہیں آتا۔ مثال کے طور پر اگر سنکھیا کا اثر یعنی مہلک ہونے کی قوت کسی طریقہ سے زائل کردی جائے توبھی اس کو سنکھیا ہی کہا جائے گا، اب وہ شیرینی نہیں بن گیا۔ اسی طرح حرمتِ قتال کا حکم گو اب باقی نہیں رہا مگر احترامِ محرم اب بھی باقی ہے۔ غرضے کہ پورا ماہِ محرم شروع سے آخر تک قابلِ احترام اور لائقِ تعظیم ہے اور پورا مہینہ حق تعالیٰ کی خصوصی توجہات کامحل ہے۔ اس مہینہ میں جتنا ہوسکے عبادات میں کوشش کرنی چاہیے کہ خیر و برکت کا مہینہ خالی نہ گزر جائے۔
یومِ عاشورا
اس ماہ کویہ بھی عزت حاصل ہے کہ اس کے اندر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ؑ کی معیت میں فرعونِ مصرکے ظالم و جابر ہاتھوں سے نجات پائی تھی اور فرعون مع اپنے ساتھیوں کے دریائے نیل میں غرق کیا گیا تھا۔ اس لیے بطورِ شکریہ کے حضر ت موسیٰ ؑ نے اس مہینہ کی دسویں (یوم عاشورا) میں روزہ رکھا تھا۔ اور رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ اس دن کا روزہ رکھنا رمضان کے بعد تمام روزوں سے افضل ہے۔ 1 اور ارشاد فرمایاکہ مجھے امید ہے کہ ایک عاشورا کے دن کاروزہ رکھنا