طرف سے ہے اور دوسرا رسول اللہﷺکی طرف سے ہے۔ میں نے ان سے (اس کے متعلق)گفتگو کی۔ انھوں نے فرمایاکہ حضورﷺنے مجھ کو حکم دیا ہے میں اس کو کبھی نہ چھوڑوں گا۔3
فائدہ:حضور اقدسﷺکا ہم پر بڑا حق ہے، اگر ہم ہر سال حضورﷺکی طرف سے بھی ایک حصہ دیا کریں تو کوئی بڑی بات نہیں۔
۶۔ابو طلحہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے (ایک دنبہ کی اپنی طرف سے قربانی فرمائی اور) دوسرے دنبہ کے ذبح میں فرمایا کہ یہ (قربانی) اس کی طرف سے ہے جومیری امت میں سے مجھ پرایمان لایا اور جس نے میری تصدیق کی۔1
مطلب حضورﷺ کا اپنی امت کو ثواب میں شامل کرنا تھا، نہ یہ کہ قربانی سب کی طرف سے اس طرح ہوگئی اب کسی کے ذمہ قربانی نہیں رہی۔
فائدہ:غور کرنے کی بات ہے کہ جب حضورﷺنے قربانی میں امت کو یاد رکھا توافسوس ہے کہ اُمّتی حضورﷺکویاد نہ رکھیں اور ایک حصہ بھی آپﷺ کی طرف سے نہ کردیا کریں۔
۷۔ حضر ت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ اپنی قربانیوں کو خوب قوی کیا کرو۔ (یعنی کھلا پلا کر) کیوںکہ وہ پلِ صراط پرتمھاری سواریاں ہوں گی۔2
فائدہ: عُلَما نے سواریاں ہونے کے دومطلب بیان کیے ہیں، ایک یہ کہ قربانی کے جانور خود سواریاں ہوجاویں گی، اور اگر کئی جانورقربانی کے کیے ہوں یا توسب کے بدلے میں ایک بہت اچھی سواری مل جاوے گی اور یاایک ایک منزل میں ایک ایک قربانی پرسواری کریں گے۔3
دوسرامطلب یہ ہوسکتاہے کہ قربانیوں کی برکت سے پلِ صراط پرچلنا ایساآسان ہو جائے گا جیسے گویا خود ان پر سوار ہو کر پار ہوگئے۔
اور ’’کنزالعمال‘‘ میں ایک حدیث اس مضمون کی یہ ہے کہ :
۸۔ سب سے افضل قربانی وہ ہے جواعلیٰ درجہ کی ہو اور خوب موٹی ہو۔4
۹۔ اور ایک حدیث یہ ہے: اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پیاری قربانی وہ ہے جو اعلیٰ درجہ کی ہو اور خوب موٹی ہو۔5
تاکید وفضیلت کے بعد مناسب ہواکہ کچھ ضروری احکام بھی مختصر طور پرلکھ دیے جاویں۔ لہٰذا ’’اصلاح انقلاب‘‘ سے