فائدہ: اس رات کانام شبِ براء ت (یعنی آزادی کی رات) اسی واسطے رکھاگیاہے کہ اس میں حق تعالیٰ گناہ گاروں کو عذابِ جہنم سے آزادکردیتاہے۔1
۸۔آںحضرتﷺ نے ارشاد فرمایاہے کہ جب شعبان آدھا ہوجاوے توروزہ نہ رکھو۔2
۹۔حضرت عائشہ ؓ نے فرمایاہے کہ میں نے آںحضرت ﷺ کو شعبان سے زیادہ روزہ رکھتے ہوئے کسی ماہ میں نہیں دیکھا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ (کُل)ماہِ شعبان میں روزہ رکھتے تھے سوائے تھوڑے دنوں کے۔3 اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شعبان کے نصف اخیرمیں بھی آںحضرت ﷺ روزہ رکھتے تھے، اور اس سے پہلی روایت میں اس کی ممانعت آئی ہے، اس لیے یوں کہاجائے گاکہ امت کے واسطے تونصف اخیرکے روزے خلافِ اولیٰ ہیں، مگر حضور ﷺ اس سے مستثنیٰ تھے۔ اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس کو نصف اخیر میں روزے رکھ کرضعف ہوجاوے کہ رمضان کے روزے رکھنا دشوار ہوںاس کے لیے ممانعت ہے اور جس کو ضعف نہ ہو اس کے واسطے مضایقہ نہیں ۔
۱۰۔ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ تم میں سے کوئی شخص رمضان کے ایک یادودن پہلے سے روزہ نہ رکھے، مگریہ کہ وہ شخص کسی (خاص )دن کاروزہ رکھا کرتا ہو (اور رمضان کے ایک دن پہلے وہ دن ہو۔مثلاً:ہرپیرکو روزہ رکھنے کا معمول ہے اور ۲۹ شعبان کو پیرکادن ہے)تووہ شخص اس دن بھی (نفل )روزہ رکھ لے۔ 1 اس سے یومِ شک کے روزہ کی ممانعت ثابت ہوگئی اور ایک یا دو دن کا یہ مطلب ہے کہ بعض مرتبہ توشعبان کا چاندبلااختلاف نظر آجاتا ہے، ایسے موقع پرصرف ۳۰شعبان کے متعلق شبہ ہوتا ہے، اور بعض مرتبہ شعبان میں بھی اختلاف ہوجاتاہے، اس موقع پر ۲۹ کو بھی شبہ ہوتا ہے۔
غرض یہ ہے کہ شبہ کی وجہ سے نہ ۲۹کو روزہ رکھے نہ ۳۰کو بلکہ جب شریعت کے مطابق ثابت ہو جاوے تب رمضان کو شروع سمجھا جاوے البتہ یومِ شک میں یہ مستحب ہے کہ ضحوۂ کبریٰ 2تک خبر کا انتظار کیاجائے ۔اگر کہیں سے معتبر شہادت آجائے توروزہ کی نیت کرلے ورنہ کھاپی لے۔
’’تتمہ عالمگیری‘‘ میں تصریح ہے کہ شبِ براء ت کو قبرستان میں جانادوسرے اوقات میں جانے سے زیادہ فضیلت رکھتاہے۔ اس لیے اس رات کوقبرستان میں جاکرمؤمنین اور مؤمنات کے واسطے دعا مانگنا چاہیے۔
منکراتِ ماہ ہذا:اس شبِ مبارک میں صرف دوتین باتیں ثابت ہیں ، عبادت کرنا اور قبرستان میں جاکردعائے مغفرت