مبارک‘‘ وغیرہ جائز اور فی الجملہ مستحب ہے، بشرطے کہ بطور رسم کے پابندی کے ساتھ نہ ہو۔
اگر عید جمعہ کے روز و اقع ہو تو دونوں کی نماز لازم ہے،اوّل واجب، دوسری فرض۔ بعض بے علم جمعہ کے روز عید واقع ہونے کونامبارک سمجھتے ہیں، یہ زعم بالکل باطل ہے بلکہ اس میں دوبرکتیں جمع ہوجائیں گی۔ کسی نے خوب کہاہے:
عِیْدٌ وَعِیْدٌ وَعِیْدٌ صِرْنَ مُجْتَمِعَہ
وَجْہُ الْحَبِیْبِ وَیَوْمُ الْعِیْدِ وَالْجُمُعَہ
ایک عید اور دوسری اور تیسری ۔روئے محبوب اور عید اور جمعہ بھی ۔
تنبیہ اوّل:صدقۂ فطرصاحبِ نصاب پرجیسا اپنی طرف سے واجب ہے اسی طرح باپ کے ذمہ اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے بھی واجب ہے ،گووہ کتنے ہی چھوٹے ہوں۔
تنبیہ دوم:بعض لوگ صدقۂ فطرمؤذنوں اوراماموں کو اس طرح دیتے ہیں کہ جب ان کومسجد میں رکھتے ہیں تومن جملہ اور اَشیا کے ایک صدقۂ فطرکو بھی ان کی اذان یا امامت کی اجرت میں شرط ٹھہرالیتے ہیں کہ ہرسال صدقۂ فطربھی ملاکرے گا، تواس طرح شرط کرکے ان لوگوں کو صدقۂ فطر دینے سے ادانہیں ہوتا ۔اگر ایسا کیاگیا ہے تو اس قدر دوبارہ فقرا پر صدقہ کرنا لازم ہے۔ ہاں، اگر بغیر کسی شرط کے صرف غریب سمجھ کران ہی کو دے دیا جاوے تو کچھ حرج نہیں ہے، اور اگر کسی جگہ مشروط تونہ ہو مگرمعروف ہو تو ایسی جگہ ان کو مسجد میں رکھتے وقت تصریحاًاس کی نفی کر دینا چاہیے کہ صدقۂ فطرنہ ملے گا۔
اضافۂ مفیدہ:ماہِ شوال میں چھ دن نفل روزہ رکھنے کی فضیلت اور دوسرے نفل روزوں سے بہت زیادہ ہے جن کو کہ ’’شش عید کے روزے‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن اس میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کو عید کے اگلے ہی دن سے شروع کردے تب تو وہ ثواب ملتا ہے ورنہ نہیں ملتا، تو یہ خیال غلط ہے بلکہ اگر مہینہ بھر میں بھی ان کوپورا کرلیا تو ثواب ملے گا خواہ عید کے اگلے ہی دن شروع کرے یا بعد کو شروع کرے اور خواہ لگاتار رکھے یا متفرق طور پر رکھے ہرطرح ثواب ملے گا۔
بعض لوگ ان چھ روزوں میں اپنے پچھلے قضاکے روزوں کو محسوب کرلیتے ہیں کہ ’’شش عید کے روزے‘‘ بھی ہوگئے اور قضا بھی ادا ہوگئی ۔تو خوب سمجھ لوکہ ان میں قـضاکی نیت کرنے سے وہ فضیلت شش عید کی حاصل نہ ہوگی۔ قضا الگ اداکرے اور ان کو ثواب کے لیے الگ رکھے۔ گو بعض کتابوں میں اس کو لکھ دیا ہے لیکن قواعد کے خلاف ہونے سے وہ صحیح نہیں، خوب سمجھ لو۔