قصّۂ ولادت یحییٰ وعیسیٰ ؑ کے قرآن مجید میں مذکورہونے سے استدلال کا جواب: ان دونوں حضرات کے قصۂ ولادت کو اہتمام سے ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں حضرات کی ولادت ایک عجیب طریقہ سے خرق عادت کے طور پرہوئی ہے۔ یحییٰ ؑ کے والد ماجداور والدہ ماجدہ بوڑھے بہت تھے کہ اسبابِ ظاہرہ کے اعتبار سے ان میں صلاحیت ہی توالدوتناسل کی نہ رہی تھی۔ چناںچہ ارشاد ہے: { وَاَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗط}1 اس لیے ایسی حالت میں انسان کی ولادت عجیب تھی۔ اور عیسیٰ ؑ بے باپ کے پیدا ہوئے تھے اس لیے ان کی ولادت اس سے بھی زیادہ عجیب تراور خارقِ عادت تھی۔
اس واسطے حق تعالیٰ شانہ نے ان دونوں قصوں سے اپنی قدرت او ر توحید پراستدلال فرمایاہے۔ یہ وجہ ہے کہ دونوں قصوں کو اہتمام سے قرآن مجید میں ذکرفرمایاگیا۔ اور حضور ﷺ کی ولادت شریفہ چوںکہ عادت اللہ کے موافق والدین کے ذریعے بطریق معہود ہوئی ہے اس لیے آں حضرت ﷺ کی ولادت شریفہ کے ذکرکا اس قدراہتمام قرآن مجید میں نہیں فرمایاگیا۔
اب دونوں پیغمبروں کے ذکرِ ولادت کے اہتمام پرآں حضرت ﷺ کے ذکرِ ولادت کو قیاس کرکے اس کے اہتمامِ ذکر کو ثابت کرناقیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہے۔
حضورﷺکی ولادتِ شریفہ بطریق متعارف ہونے میں حکمت: حضورﷺ کی دنیا میں تشریف آوری اور آپ کی ولادتِ مبارکہ اسی طرح ہوئی جس طرح عادت اللہ جاری اورمعروف طریقہ ہے۔ خرقِ عادت کے طور پرغیرمعروف اور غیر متعارف طریقہ سے آپ ﷺ کی ولادتِ مبارکہ نہ ہونے میں ایک حکمت یہ ہے کہ آدمی کو زیادہ اُنس اس سے ہوتاہے جس سے کچھ مناسبت ہو اور قاعدہ ہے کہ جس قدر مناسبت زیادہ ہوگی اُنس بھی زیادہ ہوگا اور جس قدر مناسبت کم ہوگی اسی قدر وحشت بڑھے گی۔ اس واسطے آدمی کو اپنے ہم جنس کی طرف زیادہ میلان ہوتاہے اورجانوروں کی طرف کم ہوتاہے اورجنوں سے اور بھی کم بلکہ وحشت ہے، اور اسی وجہ سے انبیا ؑ سب آدمی اور انسان ہوئے ہیں۔ فرشتوں کونبی بناکرنہیں بھیجا گیا اس لیے کہ ان سے انسانوں کو وحشت ہوتی اور افادہ اور استفادہ ممکن نہ ہوتا۔ اس لیے سب رسول انسان ہوئے ہیں اور اس لیے بجر معجزات کے حضور ﷺ کی اورکوئی حالت ولادت وغیرہ بھی معمول کے خلاف نہیں بنائی گئی۔ اس لیے کہ اگرعادتِ جاریہ اورمتعارف طریقہ کے ذرا بھی خلاف کوئی بات ہوتی تومناسبت میں اور پھر اس کے سبب اُنس و محبت میں ضرورکمی آجاتی ہے۔ اس سے غرضِ محبت افادہ اور استفادہ میں نقصان آتااس لیے آں حضور ﷺ