آجاوے( یعنی مشرق کی جانب سے رات کی سیاہی اُٹھ چکے) اور اس جگہ (یعنی مغرب کی طرف) سے دن چلا جاوے اور آفتاب بھی چھپ جاوے اور چلا جاوے دن اس جگہ سے (یعنی مغرب کی طرف سے) اور چھپ جاوے آفتاب تو روزہ افطار کیا روزہ دار نے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ وقت افطار کا ہے۔ ایسے وقت میں افطار کر لینا چاہیے اور یہ وقتِ افطار بڑی ہی خوشی کا وقت ہوتا ہے کہ تمام دن کی مشقت و محنت، بھوک وپیاس کا خاتمہ اس پر ہو جاتا ہے۔ آں حضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ روزہ دار کے لیے دو وقت خوشی حاصل ہونے کے ہیں: ایک وقت خوشی حاصل ہونے کا تو یہی افطار کا وقت ہے کہ بھوک اور پیاس کی شدت کی حالت میں کھانے پینے کو مل گیا اور تشنگی رفع ہو کر رگیں بھر گئیں۔ اس خوشی کی یہ تو دنیوی حیثیت ہوتی ہے۔ دوسری حیثیت اس کی دینی یہ ہوتی ہے کہ ایک ضعیف البیان بندہ خدا تعالیٰ کے حکم کو بجا لایا اور اپنے رب کے فریضہ کی ادائیگی سے عہدہ برآ ہوگیا۔ یہ وقت واقعی خوش ہونے کا ہے کہ اتنی بھاری عبادت کے بوجھ کو اُٹھا کر یہ عاجز و ناتواں انسان ساحلِ مراد پر پہنچ گیا اور اس نے راستہ کے تمام پر خطر عقبات کو عبور کر کے امامتِ الہٰیہ کو شیطانی دست بردسے محفوظ و مامون ادا کردیا۔
دوسری خوشی روزہ دار کو اپنے رب سے ملاقات کے وقت حاصل ہوگی۔ جب اس کو روزہ کا ثواب راز دارانہ طریقہ پر عنایت کیا جاوے گا۔ اس ثواب کو حاصل کر کے اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہے گی۔ افطار کی مشروعیت میں چوں کہ ہمارے احتیاج اور ضعف پر نظر فرمائی گئی ہے اور اسی بنا پر روزہ کو افطار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے شریعت نے اُمت کو صومِ وصال (بغیر افطار کیے پے در پے روزہ رکھنا) سے منع کیا ہے اور امت کے لیے صومِ و صال مکروہ تحریمی ہے۔ بعض صحابہ ؓ نے حضور ﷺ کو صومِ وصال رکھتے ہوئے دیکھ کر جو اشکال کیا تو حضورﷺ نے اس کو اپنی خصوصیت بتلا کر فرمایا کہ تم میں میری مانند کون ہے؟ مجھے تو شب گزاری کی حالت میں اللہ تعالیٰ کھلا پلا دیتا ہے۔ یعنی ذوقِ معارف اور لذت مناجات و طاعات کے سبب جو غذا روحانی حاصل ہوتی ہے اس کے سبب غذائے جسمانی سے استغنا حاصل ہوجاتا ہے۔ اس لیے بغیر افطار کیے روزہ رکھنے سے ضعف پیدا نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ صومِ و صال حضورﷺکی خصوصیات میں سے ہے، اس لیے اہلِ سلوک اور اربابِ مجاہدہ حضرات بھی جو کہ ریاضت اور نفس کشی کے خوگر اور عادی ہوتے ہیں وہ بھی روزہ کو افطار کرلیتے ہیں، اگرچہ یہ افطار ایک چلو پانی کے ساتھ ہی ہو، تا کہ حقیقت و صال منہی عنہ سے انکا روزہ نکل جائے۔
تعجیل افطار: الملقب بہٖ ’’تکمیل الأجر في تعجیل الفطر‘‘ اسی ضعف اور عجز کے اظہار کی غرض سے افطار میں تعجیل (جلدی)