قول پر عمل کر کے روزہ افطار کر لینا جائز ہے۔ علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں:
وفي صیام القہستاني: وأما الإفطار فلا یجوز بقول واحد بل بالمثنٰی، وظاہر الجواب أنہ لا بأس بہ إذا کان عدلا صدقہ۔۔۔ إلخ۔3
اور ’’بذل المجہود‘‘ شرح ابوداود میں ہے:
واتفق العلماء علی أن محل ذلک إذا تحقق غروب الشمس بالرؤیۃ أو بـإخبار عدلین، وکذا عدل واحد في الأصح۔4
اسی حکم میں ہے وہ جنتری جو کسی عادل اور ثقہ شخص نے غروب کا مشاہدہ کرکے بنائی ہو۔
فائدہ: افطار میں تعجیل کی بعض حکمتوں کا بیان اوپر ہو چکا ہے اور پیغمبرﷺ نے اس حدیث میں تعجیل کی علت کو بیان فرمایا ہے کہ تعجیلِ افطار کی اصل علت اور اس کی وجہ اہلِ کتاب کی مخالفت ہے، وہ افطار میں اس قدر تاخیر کرتے ہیں کہ ستارے گنجان ہوجاتے ہیں، اور ہماری ملت میں یہ عادت اہلِ بدعت کی ہے، ہم کو ان کے خلاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ان کے خلاف کرنے میں یقینادین کا غلبہ اور اسلام کی شوکت کا اظہار ہے اور ان کی مخالفت کرنے والاسنت کی متابعت کرنے کی وجہ سے ضرور حق تعالیٰ کی محبت کا حق دار ہے۔ دین کی مضبوطی اور اس کا غلبہ اَعدائے دین اور دشمنانِ اسلام اہلِ کتاب کی مخالفت کرنے ہی میں ہے اور مخالفانِ دین کی موافقت کرنے میں دین کا سراسر نقصان اور اس کا ضعف ہے۔ اس طرح اہلِ کتاب اور ہمارے روزہ کے اندر ابتدا اور انتہا دونوں کے لحاظ سے فرق ہو جاتا ہے۔ہمارے روزہ کی ابتدا میں سحری ہے اور ان کے روزہ میں سحری نہیں ہے۔ ہمارے روزہ کے اندر افطار میں تعجیل ہے، بخلاف اہلِ کتاب کے کہ وہ روزہ کے افطار میں تاخیر کرتے ہیں۔
فائدۂ جلیلہ: غروبِ آفتاب کے بعد رات کا آجانا اور افطار کا حلال ہوجانا اہلِ سنت کے اجماع و اتفاق سے ثابت ہے۔ بخلاف شیعہ اہلِ بدعت کے کہ ان کے نزدیک ستاروں کے ظاہر ہونے اور سیاہی کے پھیل جانے کے بعد افطار کا وقت ہوتا ہے، اس سے قبل سُورج کے غروب پر یقین ہو جانے کے باوجود وہ افطار کو جائز نہیں سمجھتے۔ جیسا کہ’’ ارکانِ اربعہ‘‘ ص: ۲۰۰ پر ہے:
والمعتبر في نھایۃ الصوم غروب الشمس، فإذا غربت الشمس جاء اللیل وحل الإفطار بـإجماع من یعتد بـإجماعھم، خلافا للشیعۃ؛ فإنھم لا یجوّزون الإفطار قبل ظھور الکواکب الثابتۃ وغشیان الظلمۃ۔