چوتھا استدلال اس قصّہ سے ہوسکتا ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ جب آیت {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ}2 الآیۃ نازل ہوئی تو ایک یہودی نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اگریہ آیت ہم پرنازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنالیتے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ یہ آیت عید کے ہی دن نازل ہوئی ہے، یعنی جمعہ اور عرفہ کو نازل ہوئی ہے۔ اور’’ ترمذی شریف‘‘ میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے اس آیت کی تفسیرمیں فرمایاہے: نزلت في یوم جمعۃ ویوم عرفۃ۔
تقریر استدلال اس حدیث سے یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت عمر او رابن عباس ؓ نے عید بنانے پرانکار نہیں فرمایا۔ معلوم ہواکہ عطائے نعمت کی تاریخ کو عید بنانا جائز ہے۔ اس کا ایک جواب تویہی ہے کہ انکار کا اس جگہ ہونا ضروری نہیںہے۔ چناںچہ ہمارے فقہا نے عرفہ کے دن حاجیوں کی مشابہت سے جمع ہونے پرانکار فرمایا ہے حالاں کہ یہ بھی ایک عید ہے۔ اور حضرت عمرؓ سے شجرۂ حدیبیہ پراجتماع کاانکار کہ وہ بھی مشابہ عید کے تھا، منقول ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ ایسی عید بنانے کوجائز نہیں سمجھتے تھے۔ اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ کاقول ’’بخاری‘‘ اور’’ مسلم‘‘ میں ہے: لَیْسَ التَّحْصِیْبُ بِشَيْئٍ۔ (وادیٔ محصّب میں قیام کرناکوئی چیز نہیں ہے۔) حالاںکہ حضور اکرم ﷺ سے اس وادی میں قیام منقول ہے، لیکن صرف اتنی بات کی وجہ سے کہ کوئی شخص عادت کو عبادت نہ سمجھ لے اس پریہ انکار فرمایا، توغیر منقول کو عبادت سمجھنا ان کے نزدیک کس قدر قابلِ انکار ہوگا۔
یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباسؓ سے جو تعریف یعنی عرفہ کے دن جمع ہونا منقول ہواہے وہ بھی یاتو اسی علت سے معطل ہے جس پرتحصیب کے بارے میں ان کا فتویٰ دلالت کررہاہے کہ اس جمع ہونے کو عبادت نہ سمجھاجائے، یا بغیر التزام اور اہلِ عرفات کے ساتھ بغیر تشبیہ کے قصدِ دعاکے ساتھ مُأوّل ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ وہ شخص مسلمان نہیں تھا یہودی تھا اس کو اس فرعی مسئلہ کے بتلانے کی حاجت نہیں تھی کہ عید بناناکیساہے؟ بلکہ اس کو ایک خاص طرز پرجواب دیا کہ تم جویہ کہتے ہو کہ ایسی نعمتِ عظمیٰ کے ملنے پرعید نہیں ہوئی، یہ غلط ہے۔ ہمارے یہاں اس روز پہلے ہی سے عید تھی۔ بلکہ اگرغور کیاجائے تواس جواب سے خود معلوم ہوتاہے کہ عید بناناجائز نہیں، یعنی حضرت عمرؓکامطلب یہ ہے کہ ہماری شریعت میں چوںکہ ایسے اسباب سے عید کرنا درست نہ تھا اور اللہ تعالیٰ کو اس آیت کے نزول کے دن کو عید کرنا مقصود تھا ا س لیے اس کو ایسے ہی دن میں نازل فرمایاکہ عید بھی ہو جائے اور از خود عید بنانے کی بدعت سے بھی حفاظت ہوجائے۔