اعتکاف دو حج او ر دو عمرے کے مانند ہے۔5
اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ تلاش کرو تم شب قدر کو اخیرعشرہ میں رمضان کے۔ 6
اور آںحضرت اللہ ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جب عشرۂ اخیرہ داخل ہوتاتو کمر مضبوط باندھ لیتے (یعنی عبادت کا بہت زیادہ اہتمام کرتے) اور شب بیداری کرتے اور اپنے گھر والوں (یعنی ازواجِ مطہراتؓ ) کو اور صاحب زادیوں کو جگاتے۔1 اور حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا: اے رسول اللہ! اگر مجھے (کسی طرح)2 شبِ قدر معلوم ہوجائے کہ فلاں رات میں ہے، تو میں اس میں کیا کہوں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اَللّٰھُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْکہو۔( اے اللہ !تومعاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند رکھتا ہے۔ پس میرے گناہ معاف فرمادے۔)3
اور آںحضرت ﷺ سے سوال کیا گیا لیلتہ القدر کے بارے میں، توآپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ ہررمضان میں ہوتی ہے۔4
اور حق تعالیٰ شانہ نے ارشاد فرمایا ہے: قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی اور جفت کی اور طاق کی اور رات کی جب وہ چلے!۔
فائدہ:یہاں دس راتوں سے مراد عشرۂ اخیرہ کی دس راتیں ہیں ۔5(پس ان کی قسم کھانے سے بڑی فضیلت معلوم ہوئی )۔
رمضان کے متعلق ضروری اور مختصر ہدایات
صوم:
۱۔بلا وجۂ شرعی روزہ کو ترک کرنا حرام اور سخت گناہ ہے۔
۲۔ روزہ کی غرض قوتِ بہیمیّہ کے منکسرکرنے میں منحصر نہیں ہے جیساکہ بعض نادانوں نے خیال کرکے روزہ کوغیرضروری سمجھ لیا ہے۔ بلکہ اصل وجہ خدا اور رسول اللہ ﷺ کا حکم ماننا ہے جو ہر حال میں ضروری ہے۔
۳۔ روزہ کی نسبت تمسخر کے کلمات کہنا۔ مثلاً یہ کہ روزہ وہ رکھے جس کے گھر اناج نہ ہو، یا یہ کہ ہم سے بھو کا نہیں مراجاتا، کفرہے۔
۴۔ بلاضرورت صرف روزہ چھوڑنے کے واسطے سفرکرنا جائز نہیں۔ اسی طرح بعض لوگ خواہ مخواہ اپنے آپ کو بیمار بنا کر رمضان میں مسہل وغیرہ شروع کردیتے ہیں یہ بھی سخت گناہ ہے۔
۵۔ اچھا تن درست آدمی روزہ کے بدلے فدیہ دے کر روزہ سے بَری نہیں ہوسکتا بلکہ فدیہ شیخِ فانی وغیرہ کے لیے ہے جس کی تفصیل کتبِ فقہ میں موجود ہے۔
۶۔ جوافطار شرعی عذرسے ہو اور اس عذر کے دفع ہونے کے وقت کچھ دن باقی رہے توکھانے پینے وغیرہ سے رُکنا چاہیے۔