معلوم ہوگیا تو امام وضو کرے اور لوگوں کو دوبارہ نماز پڑھائے، اور اگر لوگ متفرق ہوچکے ہوں تو نماز کا اِعادہ نہ کیا جائے وہی نماز جائز ہوگی۔3
۱۶۔جس شخص کو عید گاہ میں وضو کرنے سے نمازِ عید کے نہ ملنے کا خوف ہو تو وہ تیمم کرکے نماز میں شریک ہوجائے۔4
۱۷۔ عیدالاضحی کے دن منیٰ میں چوں کہ مناسکِ حج میں مشغولیت ہوتی ہے اس لیے اہلِ منیٰ پر عید کی نماز واجب نہیں۔5
صدقۂ فطر کے احکام
۱۔ جو مسلمان اتنا مال دار ہو کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو، یا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے لیکن ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال و اسباب ہے جتنی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، یعنی ساڑھے باون تو لے چاندی کی قیمت کا مال واسباب ہے تو اس پر عید الفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے، چاہے وہ سوداگری کا مال ہو یا سوداگری کا نہ ہو۔ اور چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقہ کو شریعت میں ’’صدقۂ فطر‘‘ کہتے ہیں۔6 البتہ اگر وہ قرض دار ہے تو قرضہ مجرا کر کے دیکھا جائے گا، اگر اتنی قیمت کا اسباب بچ رہے جو اوپر مذکور ہے تب تو صدقۂ فطر واجب ہے ورنہ نہیں۔ جس طرح مال دار ہونے کی صورت میں مردوں پر صدقۂ فطر واجب ہے اسی طرح اگر عورت کے پاس کچھ مال اس کی ملکیت میں ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو۔ مثلاً: اس کے پاس زیور ہے جو اس کے والد کی طرف سے اس کو دیا گیا ہے یا خاوند نے زیور دے کر اس کو مالک بنا دیا ہے، تو عورت پر بھی اپنی طرف سے صدقۂ فطر واجب ہے۔
۲۔ مگر عورت پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، نہ بچوں کی طرف سے، نہ ماں باپ کی طرف سے نہ شوہر کی طرف سے۔ 1
۳۔ البتہ مردوں پر جس طرح اپنی طرف سے صدقۂ فطر دینا واجب ہے، اسی طرح نابالغ اولاد کی طرف سے بھی صدقۂ فطر دینا واجب ہے۔ اگر اولاد مال دار نہ ہو تو پھر باپ کے ذمہ اپنے مال میں سے دینا واجب نہیں بلکہ اولاد کے مال میں سے ادا کرے اور بالغ اولاد کی طرف سے بھی دینا واجب نہیں۔ البتہ اگر کوئی بالغ لڑکا، لڑکی مجنون ہو تو اس کی طرف سے اس کا والد صدقہ ادا کرے۔2
وقت وجوبِ صدقہ: