افطار میں جلدی کرنا افضل ہے۔ لہٰذا نماز سے پہلے افطار کرنا مستحب ہے۔
تحقیق :جب تحقیق بالا سے یہ امر ثابت ہو چکا کہ افطار میں افضل یہی ہے کہ قبل الصلوٰۃ ہو اور اسی کو فقہا نے مستحب لکھا ہے تو اب اگر کسی موقع پر آں حضرت ﷺ یا کسی صحابی سے نماز کے بعد افطار کرنا ثابت ہو تو کسی عارض کی وجہ سے ہوگا یا جوازِ حدِ اباحت کے بیان کرنے کے لیے ہوگا۔ اب اس کو امت کے لیے اس طرح تو پیش کیا جاسکتا ہے کہ کسی عذر کی وجہ سے اس پر عمل جائز ہے اور بغیر عذر کے بھی اگر کوئی شخص اس پر عمل کرلے گا تو وہ عمل جواز کی حد اور اباحت کے دائرے میں رہے گا اور عامل کراہتِ تحریمیہ کا مرتکب نہ ہوگا۔ بشرطے کہ اشتباکِ نجوم تک افطار کو مؤخر نہ کیا ہو، اگرچہ بغیر عذر ایسا کرنا ترکِ اولیٰ ہونے کی وجہ سے ثواب میں کمی کا باعث ہوگا۔ مگر اس پر عمل کرنے کے لیے عام حالات میں لوگوں کو دعوت و تبلیغ نہیں کی جاسکتی۔
اس کی ایک نظیر وضو ہے کہ حضورﷺ نے کسی وقت اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا ہے اور کسی وقت دو دو مرتبہ دھونا ثابت ہے۔ لیکن یہ عمل چوںکہ بیانِ جواز کے طور پر تھا اس لیے اس کی تبلیغ عام طور پر نہیں کی جاتی عام تبلیغ تو ایسے عمل کی کی جاتی ہے جس کی ترغیب حضرت شارع ؑ نے فرمائی ہو اور وہ شریعت کا مقصود ہو، جیسا کہ وضو میں ہر عضو کو تین تین مرتبہ دھونا شارع کی عادتِ مستمرہ اور دائمی عمل تھا اور اس پر قولی ترغیب سے معلوم ہوا کہ یہ عمل مقصودِ شریعت اور مستحب ہے اس لیے اس کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی جائے گی اور اس پر عمل کی ترغیب دی جائے گی۔ اسی طرح افطار قبل الصلوٰۃ پر آں حضرت ﷺ کا عمل دائمی طور پر تھا اور نماز کے بعد اگر افطار فرمانا آپﷺ سے ثابت ہو تو کسی وقت بیانِ جواز کے لیے آپﷺ نے ایسا کیا ہوگا یا کچھ اور عذر ہوگا۔ اس لیے افطار قبل الصلوٰۃ ہی مستحب اور مقصودِ شریعت ہے اس کی ترغیب اور ترویج میں سعی اور کوشش کی جانی چاہیے اور کہنا چاہیے کہ کھجور یا پانی سے اذان کے ساتھ ہی افطار کرلیں اور افطار کا کھانا نماز کے بعد کھائیں۔
تنبیہ: حضور ﷺ جس عمل کو بیانِ جواز کے لیے کرتے تھے آپ کو اس پر پورا ثواب عنایت ہوتا تھا، کیوںکہ آپ ﷺ کا مقام اور منصب بیانِ تشریع ہے اور آپ ﷺ اس بیان کے مامور تھے، اس لیے اس کے بیان میں اتباع امر الٰہی کے باعث آپﷺ رخصت پر عمل فرما کر بھی عزیمت پر عمل کرنے کے برابر مکمل ثواب کے مستحق ہوتے تھے۔ اور