جس وقت چاہے قربانی کرے۔ مگر رات کو ذبح کرنا بہتر نہیں ہے اور سب سے افضل بقر عید کا دن ہے، پھر گیارہویں، پھر بارہویں تاریخ ہے۔ لیکن شہروں میں بقر عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنی درست نہیں ہے اور دیہات میں دسویں کی صبح صادق کے بعد بھی قربانی کر دینا درست ہے۔ 4
۹۔ شہر میں اگر کسی نے بقر عید کی نماز سے پہلے قربانی کردی تو اس کو دوبارہ قربانی کرنا ضروری ہے۔5
۱۰۔ جس شہر میں عید کی نماز کئی جگہ پڑھی جاتی ہو وہاں قربانی کے صحیح ہونے کے لیے صرف ایک جگہ نماز کا ادا ہو جانا کافی ہے۔6شہر میں نماز عید کے بعد قربانی کی گئی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ عید کی نماز کسی وجہ سے نہیں ہوئی، مثلاً: امام بغیر طہارت تھا، تو قربانی ہوگئی۔7اگر گواہی کی بنا پر عید کی نماز پڑھی گئی اور قربانی کی گئی پھر ظاہر ہوا کہ گواہی غلط تھی اور وہ نویں کا دن تھا تو قربانی درست ہوگئی۔1 اگر کسی عذر سے پہلے دن شہر میں بقر عید کی نماز نہیں پڑھی گئی تو نماز کا وقت گزرنے پر زوال کے بعد قربانی جائز ہے اور گیارہویں اور بارہویں کے دن زوال سے پہلے بھی قربانی کرسکتے ہیں۔2قربانی کا جانور اگر شہر میں ہے تو پھر چاہے قربانی کرنے والا گاؤں میں ہو نماز عید سے پہلے ذبح کرنا درست نہیںہے اور اگر قربانی گاؤں میں ہو تو اس کا نماز عید سے پہلے صبح صادق کے بعد ذبح کرنا جائز ہے۔3اگر قربانی کی تاریخ میں شک واقع ہو جائے تو مستحب ہے کہ تیسرے دن سے پہلے قربانی کرلے اور تیسرے دن ہی قربانی کی تو پھر مستحب یہ ہے کہ وہ قربانی ذبح کر کے مسکینوں کو تقسیم کردی جائے اور اس میں سے خود نہ کھایا جائے۔4
قربانی کا جانور:
۱۱۔ بکری، بکرا، بھیڑ، دُنبہ، گائے، بیل، بھینس، بھینسا، اُونٹنی، اُونٹ، صرف ان جانوروں کی ہی قربانی جائز ہے۔ مرغی یا مرغا قربانی کی نیت سے ذبح کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔
قربانی کی عمر:
۱۲۔بکری، بکرا سال بھر سے کم، اور گائے، بیل، بھینس، بھینسا دوسال سے کم، اور اونٹ، اونٹنی پانچ سال سے کم عمر کا جائز نہیں ہے۔ اور بھیڑ، دُنبہ چکتی دار ہو یا بے چکتی ہو، اگر ایسا فربہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو چھ مہینے کا بھی جائز ہے۔ 5 اور اگر ایسا فربہ نہ ہو تو پھر سال بھر سے کم کا جائز نہیں۔ 6
۱۳۔ بکرا، بکری، بھیڑ، دُنبہ کو صرف ایک شخص کی طرف سے قربانی کیا جاسکتا ہے، اور گائے، بیل بھینس، بھینسا، اونٹنی،