کی ولادت مبارکہ کسی نئے طرز سے نہیں ہوئی اور یہی آپﷺ کی شان محبوبیت اور افادہ کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ اس کے خلاف کو ثابت کرنا اس حکمتِ مذکور کو نظرانداز کرناہے۔
خلاصہ: یہ ہے کہ مدار منت اورفرحت و سرور کا شانِ {یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ ٰاٰیتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ }1 ہے اور ولادت شریفہ نیز نشوونما کے واقعات کی خوشی بھی اس واسطے ہے کہ وہ واسطہ ہیں اس دولت کی تحصیل کا۔ پس اصل میں تومقصود چاند کا کامل ہونا اور اس کی حالت ہدایت کی ہے لیکن پہلے دن کے چاند اور ہلال ہونے کی خوشی بھی اسی واسطے ہے کہ وہ ذریعہ ہے کامل ہونے اور ہدایت کا، اس لیے اصل سرور اور مسرت تو اس لیے ہے کہ ہم کو حضور ﷺ نے دین کی بڑی نعمت عطافرمائی، باقی اس کے جس قدر اسباب ہیں وہ چوں کہ واسطے ہیں اس لیے ان سے بھی خوشی اور مسرت ہے۔
اظہارِ خوشی کاصحیح طریقہ: یہ تو واضح ہوگیا کہ حضور ﷺ کے وجود باجود اور دلادتِ مبارکہ پر فرحت اور خوشی کا ہم کو حکم دیاگیا ہے ۔ اب یہ سمجھنا چاہیے کہ اس فرحت کے اظہار کاصحیح طریقہ کیاہے؟
سوجاننا چاہیے کہ اس آیت کے مضمون پرجس طرح امت کے لیے عمل کرنا ضروری تھا اسی طرح اس فرحت کے اظہار کاطریقہ وہی صحیح ہوگاجس طریقہ پرخود آں حضور ﷺ نے عمل کرکے اس کو ظاہر فرمایا ہوگا۔
دیکھنا چاہیے کہ حضور ﷺ نے اس فرحت و خوشی کو کس طریقہ سے ظاہرفرمایا ہے۔ کیا آپ کی سیرتِ مقدسہ یا آپ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین کی سیرت میں کہیں اظہارِ مسرت کے اس طریقہ کا ذکر ملتا ہے جس کو آج کل کے بعض مدعیانِ محبت نے عید میلاد کے نام سے ایجاد کیا ہے؟ اور یومِ ولادت کو انھوں نے عید بنا لیاہے؟ سوال یہ ہے کہ آپ کے جانشین، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ جوکہ حضور ﷺ کی صحبتِ مقدسہ کو اٹھائے ہوئے تھے اور تمام عالم سے زیاہ قرآن مجید اور آں حضرت ﷺ کے منشائے مبارک کو سمجھتے تھے۔ آخر ان کی سمجھ میں اظہارِ مسرت کا یہ طریقہ کیوں نہیں آیا؟ جب کہ آں حضرت ﷺ کی محبت بھی ان حضرات کے رگ وپے میں سرایت کیے ہوئی تھی، اور اتباع کے جذبہ سے بھی ان کے قلوب معمور تھے۔ اسی طرح تابعین جن میں بڑے بڑے مجتہد ہوئے ہیں ان کی نظربھی یہاں تک کیوں نہیں پہنچی؟
بدعت وسنت کے پہچاننے کاقاعدۂ کلیہ: ظاہر ہے کہ ولادتِ نبوی ﷺ باعثِ خوشی اور اظہارِ مسرت کا سبب ہے اور اسی خوشی کے اظہار کے لیے آج کل یہ نیاطریقہ ایجاد کیاگیاہے کہ اس دن کو عید مناتے ہیں اور جلوس وغیرہ نکالتے ہیں،