جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑ بنادیتے ہیں جن کی مسافت آسمان اور زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔
بہر حال معتکف کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ کسی کے در پہ جا پڑے کہ اتنے میری درخواست قبول ہوٹلنے کا نہیں:
نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے
یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے
اور اعتکاف کا مقصد اور اس کی روح اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے ساتھ خود کو وابستہ کرلینا ہے کہ سب سے ہٹ کر اور ساری مشغولیتوں کے بدلہ میں اسی کی ذات پاک سے مشغول ہوجائے اور اس کے غیر کی طرف سے منقطع ہو کر ایسی طرح اس میںلگ جائے کہ خیالات تفکرات سب کی جگہ اس کی پاک فکر اور اس کی محبت سما جائے:
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھا رہوں تصورِّ جاناں کیے ہوئے
اعتکاف کی خصوصیتیں بہت ہیں اس میں قلب کو دنیا و ما فیہا سے یکسو کر لینا ہے اور نفس کو مولیٰ کے سپرد کر دینا اور آقا کی چوکھٹ پر پڑ جانا ہے:
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑا رہوں
سر زیر بار منت دربار کیے ہوئے
نیز اس میں ہر وقت عبادت کے اندر مشغولی رہتی ہے کہ آدمی سوتے جاگتے ہر وقت عبادات میں لگا ہوا شمار ہوتا ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تقرب بڑھتا رہتا ہے۔
مسائلِ اعتکاف
مسئلہ: رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کا اعتکاف سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔ نبی کریم ﷺ کی عادتِ کریمہ ان ایام میں اعتکاف فرمانے کی تھی۔ اس لیے ہر بستی میں کم از کم ایک آدمی کو ضرور اعتکاف میں بیٹھنا چاہیے۔ ورنہ تمام اہلِ بستی کو سنتِ مؤکدہ کے ترک کرنے کا گناہ ہوگا۔
مسئلہ:رمضان شریف کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیسویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے ایسی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے داخل ہوجائے جس میں جماعتِ پنجگانہ ہوتی ہو اور عید کا چاند نظر آنے تک وہاں ہی رہے۔ عید کا چاند نظر آنے پر غروب کے بعد اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔