حضرت کی محبت اور آپ کے دینی احسانوں کے صلہ میں آپ کو ثواب بخشنا ہو، تاکہ آپ کو ترقیٔ مدارج کا قرب کا نفع ہو، پھر اس خدمت ثواب رسانی پر حق تعالیٰ شانہ جو چاہے نعمت دے دیں، جس میں حضرت کے علم و تصرف کو دخل بھی نہ ہو، ایسے شخص کو اس کی اجازت ہے اور اس کے ساتھ ہی مصلحتِ شرعیہ یہ ہے کہ ایسی بات سے احتیاط رکھے جس سے ظاہر بینوں کو شبہ اور سند ہوسکے۔ یعنی اوّل تو کسی پر اس کا اظہار نہ کرے اور نفلِ طاعت ویسے بھی خفیہ افضل ہے۔ دوسرے اگر مخفی نہ رہ سکے تو اس کا مروج نام گیارہویں نہ رکھے، ثواب رسانی مناسب اور صحیح اور حقیقت پر دلالت کرنے کے لیے کافی عنوان ہے۔
اضافہ:مزید تحقیق اس مسئلہ میں’’ رأس الربیعین‘‘ کے جز و ِثانی مسمیٰ بہ’’ الحضور لأمور الصدور‘‘ میں ملاحظہ ہو۔ اہلِ انصاف کے واسطے یہ تفصیل بالکل کافی ہے، اس واسطے اس پر بس کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ تفصیل کا شوق ہو تو ان رسالہ جات کا مطالعہ کریں جن کا حوالہ اس مضمون میں دیا گیا ہے ۔’’اصلاح الرسوم‘‘ باب سوم کی فصل اوّل ضرور ملاحظہ فرمالیں۔
ماہِ رجب کے فضائل اور احکام
بعد حمد وصلوٰۃ ناظرین کی خدمت میں التماس ہے کہ ماہِ رجب ایک مبارک مہینہ ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ رجب کا مہینہ آتا تو آں حضرت ﷺ دُعا مانگتے کہ اے اللہ! برکت دے ہمارے لیے رجب میں اور شعبان میں، اور پہنچا ہم کو رمضان تک۔1 اور اس ماہِ مبارک میں سرورِ کائنات علیہ أفضل الصّلاۃ والتسلیم کو حق تعالیٰ شانہ نے معراج کا عظیم الشان رُتبہ عطا فرمایا جو آں حضرت ﷺ کے سوا کسی پیغمبر کو نہیں ملا۔ یعنی اس انسانی جسم سمیت آپ مکہ معظمہ سے بیت المقدس اور پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں کو طے کر کے ایسی بارگاہِ قرب تک پہنچے کہ جہاں بشر تو بشر کسی فرشتہ کی بھی رسائی نہ ہو سکی، حتیٰ کہ تمام ملائکہ کے سردار جبریل امین نے بھی سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچ کر آگے بڑھنے سے معذوری کا اعتراف کیا۔ چناںچہ شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں:
بدو گفت سالار بیت الحرام
کالے حامل وحی برتر خرام
بگفتا مجالم نماند