اور خاص کر لینا درست نہیں۔ اسی طرح اس دن کو ایک تہوار قرار دے لینا بھی ٹھیک نہیں۔ بغیر رسم اور کسی خاص طعام کی پابندی اور تخصیص کے بغیر اگر اس روز فراخی کھانے میں کرے تو کوئی مضایقہ نہیں۔
۸۔شربت پلانا: جب پانی پلانا ثواب کا کام ہے تو گرمی میں شربت پلانے میں کیا حرج تھا؟ مگر اس شربت کی بعض جگہ ایسی پابندی کرلی گئی ہے کہ چاہے موسم سردی ہی کا کیوں نہ ہو مگر شربت پلایا جاتا ہے۔ یہ رسم کی پابندی ہے اس کو ترک کرنا چاہیے۔ اس شربت پلانے میں ایک پوشیدہ اعتقادی خرابی یہ بھی ہے کہ حضرات شہدائے کربلا چوں کہ پیاسے شہیدہوئے تھے اور شربت پیاس بجھانے والا ہے اس کو اس لیے تجویز کیاگیا ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ ان لوگوں کے عقیدہ میں عین شربت پہنچتاہے جس کا باطل ہوناقرآن سے ثابت ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ قربانی کے گوشت کے متعلق فرماتے ہیں: {لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلااَا دِمَآؤُہَا وَلٰـکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْط}۔ 1
شربت پلانے سے اگرمقصود ثواب کا حاصل کرنا ہے تو وہ دوسری چیز کے صدقہ کرنے سے بھی ہوسکتاہے۔ کیا شربت کے ثواب میںپیاس بجھانے کاخاصہ ہے؟ پھر اس سے یہ بھی لازم آتاہے کہ ان کے گمان میں شہدائے کربلا (نعوذباللہ) اب تک پیاسے ہیں، یہ کس قدر بے ادبی ہے۔ ان مفاسد کی وجہ سے شربت کی تخصیص سے بھی احتیاط لازم ہے۔ جو میسر ہو نقدی، غلہ وغیرہ سے فقیروں کی امداد کرکے ثواب شہدا وغیرہ کو پہنچا دیا کریں۔
۹۔ شہادتِ حسین ؓکا قصہ بیان کرنا: اگر صحیح روایات سے اس کو بیان کردیا جایا کرتا تو کچھ حرج نہ تھا۔ مگراس میں چندخرابیاں پیدا ہوگئی ہیں:
الف۔عام طور پر مقصود اس قصہ کے ذکر سے ہیجان اور جلبِ غم اور گریہ و زاری ہوتا ہے۔ اس میں صریح مقابلۂ شریعتِ مطہرہ ہے، کیوں کہ شریعت میں ترغیبِ صبر کا حکم ہے، اور تعزیت سے مقصود یہی ہے کہ صبراورتسلی کے کلمات کہے جاویں تاکہ غم زدہ کا غم ہلکا ہو کر اس کو صبر کی طرف توّجہ ہو۔ ’’درمختار‘‘ میںہے: ولا بأس بتعزیۃ أھلہ و ترغیبھم في الصبر۔
اس لیے گریہ و زاری کا سامان مہیا کرکے اور قصداً قصہ غم ناک کی یاد تازہ کر کے غم کو زیادہ کرنا مقصودِ شرع کے خلاف ہونے کی وجہ سے ممنوع ہوگا۔ البتہ اگر کسی کو غلبۂ غم سے از خود آنسو آجائیں تو اس میں گناہ نہیں مگر زبان سے بے صبری کا کلمہ نہ نکلنے دے، صدمہ کے ہونے یا اس کے یاد آنے کے وقت إِنَّالِلّٰہِ إلخ پڑھنے او رصبر کرنے کاحکم ہے، نہ کہ حسرت