باطل عقیدہ ہے۔ دیکھئے آںحضرتﷺ نے اس ماہ میں تین عمرے کیے ہیں اس سے کتنی برکت ثابت ہوتی ہے۔نیزماہِ ذیقعدہ حج کے مہینوں میں سے ہے جیساکہ حدیث اوّل میں گزرچکا۔
ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ حج اور عمرہ ملا کر کیا کرو کیوں کہ وہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح دورکرتے ہیں جیسا کہ بھٹی لوہے اور چاندی اور سونے کے میل کو دور کرتی ہے۔ اور حجِ مبرور (یعنی مقبول) کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔1
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شیطان کسی دن عرفہ کے دن سے زیادہ ذلیل وراندہ نہیں ہوا اور حقیرورنجیدہ نہیں دیکھاگیا، اور نہیں ہے یہ مگر اسی کی وجہ سے جوکہ وہ رحمت کانازل ہونا اور خداتعالیٰ کابڑے سے بڑے گناہ سے درگزر فرمانا دیکھتا ہے، سوائے جنگِ بدر کے (کہ اس میں تویومِ عرفہ کے برابر یازیادہ اس کی خواری وغیرہ دیکھی گئی) کیوں کہ (اس روز) اس نے جبرئیل ؑ کوفرشتوں کی صفیں ترتیب دیتے ہوئے دیکھا تھا۔2
ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ (ایک) عمرہ (دوسرے) عمرہ تک کفّارہ ہے ان دونوں کے درمیان (کے گناہوں) کا۔3
ارشاد فرمایارسول اللہ ﷺ نے کہ حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، اگروہ دعا مانگیں توخدا قبول کرتاہے اور وہ استغفار کریں تووہ ان کی مغفرت کردیتا ہے۔ 4
ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جس شخص نے میری قبرکی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت ضروری ہوگئی۔5
فائدہ:جن کوگنجایش ہو وہ حج کے ساتھ زیارتِ مدینہ کاشرف بھی ضرورحاصل کریں کہ اس کی بڑی فضیلت واردہوئی ہے بلکہ تاکید بھی روایات میں آئی ہے۔ اور اس روایت سے یہ بھی معلوم ہواکہ قبرشریف کی نیت سے جانا بھی مضایقہ نہیں رکھتا۔
اور حق تعالیٰ شانہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ابراہیم ؑ سے بھی کہا گیا تھا کہ (لوگوں میں حج کے فرض ہونے کا)اعلان کردو،لوگ تمھارے پاس (حج کے لیے) چلے آئیں گے، پیادہ بھی اور دبلی اونٹنی پر بھی جوکہ دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی۔
حج کے متعلق چندضروری ہدایات
جس کے پاس ضروریات سے زائداتنا خرچ ہوکہ سواری پرمتوسط گزران سے کھاتا پیتا چلاجاوے اورحج کرکے چلاآوے اس کے ذمے حج فرض ہوجاتاہے اور حج کی بہت بڑی بزرگی آئی ہے۔ جنابِ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے کہ جوحج