بعض جو موضوع نہیں وہ بھی بہت ضعیف ہیں، اس لیے اس روزہ کے متعلق سنت ہونے کا اعتقادنہ رکھا جاوے۔ فضائلِ اعمال میں جو ضعیف روایت پر عمل جائز ہے اس کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ اس فضیلت کا اعتقادنہ کرے صرف احتمال کی بناپر توقع رکھ کر عمل کرلے۔ اگر کوئی شخص ہزار روزے کے برابر ثواب نہ سمجھے بلکہ ویسے ہی فضیلت کادن ہونے کے سبب روزہ رکھے تو اس میں مضایقہ نہیں جیساکہ ’’شامی‘‘ وغیرہ میں تصریح ہے ۔حضرت عمر ؓ سے جوروایت ہے کہ وہ ۲۷رجب کو روزہ رکھنے سے منع کرتے تھے حتیٰ کہ اس روز لوگوں کو ہاتھ پکڑ کر کھانا کھانے پر مجبور کرتے تھے، اس کی یہی وجہ ہے کہ عام طور پر کسی فعل کو کرنے سے عوام اس کو سنت ہی سمجھنے لگتے ہیں ۔اس واسطے اس روزہ کا اہتمام ان روزوں کی طرح نہ کرنا چاہیے جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں۔ مثلاً: محرم اور شبِ براء ت کاروزہ ۔
بعض لوگوں سے معلوم ہواہے کہ اس مہینے میں تبارک کی روٹیاں بھی پکتی ہیں ، سواس کی شریعت میں کوئی بھی اصل نہیں محض من گھڑت بات ہے ،اس سے احترازِ کلی لازم ہے۔ بلاسند شرعی کسی بات کو باعثِ عذاب یاباعثِ ثواب سمجھنا اِحداث فی الدین اور گمراہی ہے۔ خداسب مسلمانوں کو تمام بدعات سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
ماہِ شعبان کے متعلق احکام اور فضائل
یہ ماہِ مبارک مقدمہ ہے رمضان شریف کا،جیساکہ ماہِ شوال تتمہ ہے رمضان کا۔
قرآن شریف میں حق تعالیٰ نے جو ارشاد فرمایاہے:
{ حٰمٓo ج وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِoلا اِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ o فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍحَکِیْمٍ oلا اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَاط اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَo}1
قسم ہے کتاب واضح کی کہ ہم نے اس(کتاب)کو ایک برکت والی رات میں اُتاراہے،بے شک ہم آگاہ کرنے والے ہیں ایسی رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہمارے حکم سے طے کیا جاتاہے ، بے شک ہم (آپ کو )پیغمبر بنانے والے ہیں۔
اس آیت میں برکت والی رات سے شعبان کی پندرہویں رات مراد ہے۔2پس اس آیت سے اس ماہ کی اور خاص کر پندرہویں رات کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوگئی اور اس ماہ کے متعلق شریعتِ مقدسہ کے چنداحکام ثابت ہوئے ہیں:
۱۔اس کے چاند کابہت اہتمام کرنا چاہیے۔
۲۔پندرہویں شب کو عبادت کرنا اور پندرہویں تاریخ کوروزہ رکھنا مستحب ہے۔
۳۔ نصف شعبان کے بعد روزہ رکھناخلافِ اولیٰ ہے ۔
۴۔ یومِ شک میں روزہ رکھنا منع ہے ۔