میں بھی فرق آگیا۔
واقعی اب جو لوگ اللہ والے کہلاتے ہیں ان کے یہاں بھی اکثر صرف کثرتِ ذکر کی ہی تعلیم کا اہتمام ہوتا ہے، نوافل و تلاوت کا خیال ہی نہیں رہا۔ گو ابتدائے سلوک میں سالک کے لیے ذکر اللہ کی کثرت زیادہ مفید اور یکسوئی پیدا کرنے کے اندر معین ہے، مگر اب تو صوفیائے زمانہ کو ذکر کی پابندی کرتے ہوئے تو کچھ دیکھا بھی جاتا ہے، اگرچہ اس میں بھی اب بہت کمی آتی جارہی ہے مگر آخری عمر تک تلاوت کلام اللہ کی پابندی اور نوافل کی کثرت کا تو کہیں نام و نشان بھی نہیں إلا ما شاء اللّٰہ، ہمارے اسلاف کا تو یہ طریقہ نہ تھا۔
فضیلتِ اعتکاف
رمضان کے عشرۂ اخیرہ میں ایک خاص عبادت اعتکاف بھی ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسجد میںاعتکاف کی نیت کر کے ٹھہر جائے اور بلا ضرورتِ شدیدہ مسجد سے نہ نکلے۔ اعتکاف پر جو ثواب کا وعدہ ہے وہ ہر حالت میں مل جائے گا خواہ مسجد میں سوتا ہی رہے۔ یہ کیسی عجیب عبادت ہے! اس کی عقلی وجہ یہ ہے کہ مسجد کی حقیقت دربارِ خداوندی اور آستانۂ شاہی کی ہے، اسی واسطے مسجدوں کے آداب میں ہے کہ بازاروں کی طرح ان میں آوازیں بلند نہ کی جائیں، طہارت اور صفائی کو لازم سمجھیں، تو اب اعتکاف کی حقیقت دربارِ خداوندی میں پڑا رہنا ہوا۔ اور ظاہر ہے کہ اگر کسی دنیا دار انسان کے دروازہ پر کوئی پڑا رہے تو وہ بھی آخر اس کو روٹی دے دیتا ہے کہ میرے دروازے پر پڑا ہوا ہے۔ حق تعالیٰ تو ارحم الراحمین ہیں وہ ایسے شخص پر کیوں نہ عنایت فرمائیں گے۔ خوب کہا گیا:
خسر و غریب است و گدا افتادہ درکوئے شما باشد کہ ازبہر خدا سوئے غریباں بنگری۔
حدیث شریف میں اعتکاف کی ایک خاص فضیلت کا ذکر آیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ معتکف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لیے نیکیاں اتنی ہی لکھی جاتی ہیں جتنی کہ کرنے والے کے لیے۔ پہلے جملہ کا مضمون تو ظاہر ہے کہ سب معاصی سے بچنے کا ثواب ملتا ہے، کیوں کہ واقع میں وہ سب معاصی سے بچا رہا۔ دوسرے جملے کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے وہ نیک اعمال جن کو معتکف اعتکاف میں بیٹھنے کی وجہ سے نہیں کر سکتا، مثلاً مریض کی عیادت، جنازہ کی نماز میں شرکت وغیرہ، ایسے امور کا ثواب بھی اس کو بغیر کیے ہی ملتا رہے گا۔ اللہ اکبر! کس قدر رحمت اور فیاضی ہے کہ ان امور کا ثواب بغیر کیے صرف نیت ہی پردے دیا جاتا ہے۔ اگر معتکف کوان کا ثواب نہ ملتا تو شاید یہ حسرت ہوتی کہ اچھا اعتکاف کیا، ایک عبادت کے سبب بہت سے ثواب کے کاموں سے محروم رہ گئے۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ کی رضا کے واسطے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اور