ثابت نہیں ہو سکتا جس کا دعویٰ کیا گیا ہے، کیوں کہ ایک آدھ مرتبہ اگر ایسا واقعہ ہوا بھی ہو کہ سورۂ طور کے برابر تلاوت کرنے کے بعد حضور ﷺ نے افطار فرمایا ہو تو اس میں بیانِ جواز و اباحت کے احتمال ہونے کے ساتھ یہ بھی احتمال ہے کہ اس کو آں حضرتﷺ کی خصوصیت پر محمول کیا جائے کیوں کہ آپ کے لیے وقتِ قلیل میں قراء تِ کثیرہ بعید نہیں۔ جیسا کہ داؤد ؑ کے لیے حدیث میں آیا ہے کہ گھوڑا کسنے کا حکم دیتے اور کسنے تک زبور ختم کرلیتے۔ اگر کسی دن کی مغرب میں سورۂ طور پڑھنے سے یہ استدلال صحیح ہے کہ مغرب میں سورۂ طور کے برابر تلاوت کرنے کے بعد بھی افطار کرنا تعجیلِ مستحب کے دائرہ میں ہے باوجود یہ کہ سورۂ اعراف سورۂ طور سے بہت طویل ہے، اگر اس سے استدلال کیا جاتا تو مقصود کے زیادہ موافق ہوتا، اگرچہ حقیقت میں وہ مُثبِتِ مدّعا نہ ہوتا۔کما ذکر مفصلاً۔
تعجیلِ افطار اور اسی طرح تاخیرِ سحور کا مسئلہ حضرات اکابر صوفیا ؒ کے نزدیک بھی معمول بہا اور ان کے کلام میں بھی مذکور ہے۔ چناںچہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں:
اور افطار میں جلدی کرنا اور سحری کو دیر سے کھانا سنت ہے۔ اس بارے میں آں حضرت ﷺ بڑا مبالغہ کرتے تھے اور شاید سحری کی تاخیر اور افطار کی جلدی میں اپنے عجز و احتیاج کا اظہار ہے جو مقامِ بندگی کے مناسب ہے اور کھجور یا چھوہارے سے افطار کرنا سنت ہے۔1
حضرت مجدد صاحب ؒ کی اس عبارت میں تعجیلِ افطار اور سحری کی تاخیر کے اندر آں حضرت ﷺ کے مبالغہ فرمانے کا ذکر ہے۔ اس پر خاص غور کیا جائے اور تعجیلِ افطار اور تاخیرِ سحور میں جو حکمت حضرت نے بیان فرمائی ہے یہ ان ہی حضرات کا حصہ ہے جن کو مقامِ عبدیت سے نوازا گیا ہے۔
افادہ :اب آخر میں ایک ایسی تحریر پیش کر کے اس مسئلۂ تعجیلِ افطار کو ختم کیا جاتا ہے جس کے تسلیم کرنے اور حجت ہونے میں ان حضرات کو بھی مجالِ گفتگو نہیں ہوسکتی جو شیعہ اثرات سے متأثر ہونے کی وجہ سے افطارِ صوم میں تاخیر کر کے خواہ مخواہ مسلمانوں میں اختلاف اور خلفشار کا سبب بن جاتے ہیں۔
فاضل بریلوی مولوی احمد رضا خان صاحب اس سوال کے جواب میں کہ دعائے افطار: اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ افطار سے پہلے پڑھی جاوے یا افطار کے بعد پڑھنی چاہیے؟ تحریر کرتے ہیں:
اگر عمر و بعد غروبِ شمس یہ دعائیں پڑھ کر افطار کرے اور زید بعد غروب فوراً افطار کر کے پڑھے تو دیکھنا چاہیے کہ ان میں کس کا فعل اللہ عزوجل کو زیادہ محبوب ہے۔ حدیث شاہدِ عدل ہے کہ فعلِ زید زیادہ پسند حضرت جل وعلا ہے کہ رب العزت تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: إن أحب عبادي إلي أعجلھم فطرًا (مجھے اپنے بندوں میں سے وہ زیادہ پیارا ہے جوان میں