قسم اوّل کے مُنکرات
۱۔ تعزیہ بنانا: جس کی وجہ سے طرح طرح کا فسق وشرک صادر ہوتا ہے۔ بعض جُہلا کا اعتقاد ہوتا ہے کہ( نعوذبااللہ) اس میں حضرت امام حسینؓ رونق افروز ہیں اور اس وجہ سے اس کے آگے نذرو نیاز رکھتے ہیں، جس کا{ وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اﷲِ}1 میں داخل ہوکر کھانا حرام ہے۔ اس کے آگے دست بستہ تعظیم سے کھڑے ہوتے ہیں، اس کی طرف پشت نہیں کرتے اس پر عرضیاں لٹکاتے ہیں، اس کو دیکھنے کو زیارت کہتے ہیں اور اس قسم کے واہی تباہی معاملات کرتے ہیں جو صریح شرک ہیں، ان معاملات کے اعتبار سے تعزیہ اس آیت کے مضمون میں داخل ہے {اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَo}2یعنی کیا ایسی چیز کو پوجتے ہو جس کو خود تراشتے ہو۔ اورطرفہ ماجرایہ ہے کہ یا تو اس کی بے حد تعظیم و تکریم ہو رہی تھی اوریا دفعتہ اس کو جنگل میں لے جاکر توڑ پھوڑ کر برابر کردیا، معلوم نہیں آج وہ ایسا بے قدر کیوں ہوگیا؟ واقعی جو امر خلافِ شرع ہوتا ہے وہ عقل کے بھی خلاف ہوتا ہے۔ بعضے نادان یوںکہتے ہیں کہ صاحب اس کو حضرت امام عالی مقام کے ساتھ نسبت ہوگئی اور ان کا نام لگ گیا اس لیے تعظیم کے قابل ہوگیا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ نسبت کی تعظیم ہونے میں کوئی کلام نہیں مگر جب کہ نسبت واقعی ہو۔ مثلاً: حضرت امام حسینؓ کا کوئی لباس ہو یا اور کوئی ان کا تبرّک ہو، ہمارے نزدیک بھی وہ قابلِ تعظیم ہیں اور جو نسبت اپنی طرف سے تراشی ہوئی ہو وہ ہرگز اسبابِ تعظیم سے نہیں ورنہ کل کو کوئی خود امام حسینؓ ہونے کا دعویٰ کرنے لگے تو چاہیے کہ اس کو اور زیادہ تعظیم کرنے لگو، حالاںکہ بالیقین اس کو گستاخ وبے ادب قرار دے کر اس کی سخت توہین کے درپے ہو جاؤگے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نسبتِ کا ذبہ سے وہ شے معظم نہیں ہوئی بلکہ اس کذب کی وجہ سے زیادہ اہانت کے قابل ہوئی ہے۔ اس بنا پر انصاف کر لو کہ تعزیہ تعظیم کے قابل ہے یا اہانت کے؟
۲۔ معازف و مزامیر کا بجانا: جس کی حرمت حدیث میں صاف صاف مذکور ہے اور باب اوّل میں وہ حدیث لکھی گئی ہے اور قطع نظر خلافِ شرع ہونے کے عقل کے بھی تو خلاف ہے، معازف و مزا میر تو سامانِ سرور ہیں، سامانِ غم میں اس کے کیا معنی؟ یہ تو در پردہ خوشی منانا ہے۔