دوسری صورت:اگرکوئی شخص ایسے وقت آیا کہ امام رکوع میں جاچکا ہے تو اگر غالب گمان ہو کہ تکبیریں کہنے کے بعد رکوع مل جاوے گا تب توطریقۂ مذکورہ کے موافق تکبیریںکہنے کے بعد رکوع کی تکبیر کہہ کر رکوع میں جاوے، اور اگر یہ اندیشہ ہو کہ رکوع نہ ملے گا تو رکوع میں شریک ہوجاوے اور رکوع ہی میں تسبیح کی جگہ بغیرہاتھ اٹھائے تکبیریں کہہ لے، اور اگرایک یا دو تکبیر کے بعد امام رکوع سے اٹھ جاوے تو یہ بھی ساتھ اٹھ جاوے، باقی تکبیر معاف ہے۔
تیسری صورت: جوشخص دوسری رکعت میں اس وقت آیا ہوجب امام رکوع میں جاچکا ہے تو اس کا بھی وہی حکم ہے جو پہلی رکعت کے رکوع کا ابھی لکھا گیا ہے، اور پہلی رکعت جو رہ گئی ہے جب امام کے سلام پھیر دینے پر اس کو پڑھے تو اوّل قراء ت پڑھنا چاہیے، اس کے بعد تین تکبیریں زائد ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر کہنے کے بعد چوتھی تکبیر رکوع کے لیے بغیر ہاتھ اٹھائے کہتا ہوا رکوع میں جائے جیسا کہ دوسری رکعت میں حکم ہے۔
چوتھی صورت: اگر دوسری رکعت کے رکوع کے بعد کسی وقت آکر ملے تو پھر دونوں رکعت اس طریقہ سے پڑھے جو شروع میں لکھا گیا ہے۔
چندضروری مسائل
۱۔اگرامام نے پہلی رکعت کی تکبیر بھول سے چھوڑ کر قراء ت شروع کردی ہو تو یہ حکم ہے کہ اگر الحمدپڑھتے پڑھتے یاد آجائے تب تو تکبیریں کہہ کر دوبارہ 1 الحمد شریف پڑھی جائے اور اگر سورت شروع کردی ہے توپھر سورت پوری کرنے کے بعد دوسری رکعت کی طرح تین تکبیریں زائد اور چوتھی تکبیر رکوع کے لیے کہہ کر رکوع میں چلے جاویں، قراء ت کا اِعادہ نہ کیا جائے۔ اور اگر رکوع میں یاد آوے تو تکبیروں کے لیے رکوع سے اُٹھنا جائز نہیں بلکہ رکوع ہی میں آہستہ آہستہ کہہ لے۔1 اور مقتدیوں میں سے بھی جس کو یاد آئے اپنی اپنی تکبیریں کہہ لیں خواہ ان کو امام کے تکبیر کہنے کا پتہ لگا ہو یا نہ ہو۔ اور اگر کسی نے رکوع سے اٹھ کر تکبیریں کہنے کے بعد رکوع کیا تو نماز ہوگئی مگر بُرا کیا، اور یہی تفصیل اس مسبوق کے لیے ہے جس کی دونوں رکعت رہ گئی ہوں۔