کپڑے نہ پہننا، چوڑی توڑدینا، ان دنوں میں شرع سے ثابت نہیں ہے اور نہ شریعت میں ان کاموں کی ایامِ محرم میں کوئی ممانعت آئی ہے۔
۵۔ کسی خاص لباس یاخاص رنگ وغیرہ کے ذریعہ اظہارِ غم کرنا: ’’ابن ماجہ ‘‘میں عمران بن حصین ؓ سے منقول ہے کہ ایک جنازہ میں رسول اللہ ﷺ نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ غم میں چادر اُتار کر صرف کرتہ پہنے ہوئے ہیں۔ یہ وہاں غم کی اصطلاح اور اس کے اظہار کا طریقہ تھا۔ آپﷺ نہایت ناخوش ہوئے اور فرمایا کہ کیا جاہلیت کے کام کرتے ہو؟ یا یہ فرمایا کہ جاہلیت کی رسم کی مشابہت کرتے ہو؟ میرا تویہ ارادہ تھاکہ تم پرایسی بد دعاکروں کہ تمھاری صورتیں بدل جائیں۔ پس فوراً ان لوگوں نے چادریں لے لیں اورپھر کبھی ایسانہیں کیا۔ اس سے معلوم ہواکہ کوئی خاص وضع اور ہیئت اظہارِ غم کے لیے بنانا حرام ہے۔
۶۔ حضراتِ اہلِ بیت کی عورتوں کا ذکر برسرِبازار کیا جاتا ہے: کوئی مُنصِف مزاج شریف الطبع انسان اپنے خاندان کی عورتوں کا اعلان اس طرح گلیوں کوچوں اور بازاروں میں ہونا پسند نہیں کرسکتا۔ پھر غور کیاجائے کہ کیا حضرت امام حسینؓ جیسی غیّور شخصیت اس کوپسند فرمائے گی کہ ان کے خاندان کی ان مطہرات کا ذکر اس طرح برسرِبازار کیاجائے جن کے دامنِ تطہیر پر نگاہِ غیر کا گزر خدائے قدوس کو گوار ا نہیں اور {وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ}1 سے ان کو قرار فی البیوت کا خاص طور پر حکم فرمایا گیا ہے۔ بعض امور اس ماہ میں ایسے بھی مروّج ہیں جوفی نفسہٖ جائز اورمباح تھے مگربوجہ فسادِ عقیدہ کے یا عمل کے وہ بھی ممنوع ہوگئے۔
۷۔کھچڑا یا اور کچھ کھانا پکاکر احباب کو یا مساکین کو دینا اس کا ثواب حضرت امام کو پہنچانا: اس کی اصل وہی حدیث ہوسکتی ہے کہ جوشخص اس دن اپنے اہل وعیال پروسعت کرے اللہ تعالیٰ سال بھر تک اس پروسعت فرماتے ہیں۔ جب اہل وعیال کے لیے وسعت کی غرض سے کھانا زیادہ پکایاگیا تو اب اگر اس میں سے غربا کو بھی کچھ دے کر اس کا ثواب حضرات امامین ؓ کے ساتھ دیگر اموات کو بھی بخش دیاجائے تواس میں کچھ حرج نہیں تھا۔ لیکن کھچڑا یا کسی اور طعام کو معیّن