حالات، مثلاً: معراج شریف وغیرہ، یہ سب حالات واقعی خوش ہونے کے ہیں لیکن اس حیثیت سے کہ ہمارے لیے یہ مقدمات ہیں ہدایت وسعادتِ ابدی کے ۔ چناں چہ اس آیت سے صاف ظاہر ہے، اس لیے کہ اس میں بعثت کے ساتھ یہ صفات بھی بڑھائی گئی ہیں: {یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ ٰاٰیتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ} الآیۃ پس بقاعدۂ بلاغت ثابت ہوتاہے کہ اصل ما بہ المنۃ یہ صفات ہیں۔ باقی ولادت شریفہ یامعراج شریف وہ باعثِ خوشی زیادہ اسی لیے ہیں کہ مقدمات ہیں اس دولتِ عظیمہ کے حصول کے، اس لیے کہ اگرولادتِ شریفہ نہ ہوتی توہم کو یہ نعمتِ عظیمہ کیسے ملتی؟
ذکرِ ولادتِ شریفہ اور ذکرِ نبوتِ شریفہ میں بڑا فرق ہے: اس آیت مبارکہ میںا س مقصود کا ذکر تصریحاًاور قصداً فرمایا گیا ہے اور دوسری آیت میں حضور ﷺ کے وجود باجود کا ذکر اشارتاً و ضمناً فرمایا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے : { لَعَمْرُکَ اِنَّہُمْ لَفِیْ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُوْنَ}1 اسی میں حضور ﷺ کی بقا اور آپ ﷺ کے وجودِ مقدس کو مقسم بہ بنایا گیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ قسم میں جواب قسم مقصود ہوتا ہے اور مقسم بہ کو تبعاً ذ کر کیا جاتا ہے۔ اور ایک مقام پرحضور ﷺ کی ولادتِ شریفہ کو بھی اس طرح ذکر فرمایاہے، فرماتے ہیں : {لَآ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِoلا وَاَنْتَ حِلٌّ مبِہٰذَا الْبَلَدِoلا وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَoلا}2کی تفسیر میں بعض مفسرین کاقول ہے کہ اس کی مصداق حضور ﷺ کی ذات والا صفات ہے۔ مگر اس اہتمام سے اس کا ذکر نہیں فرمایا گیا جیسا کہ آیت {لَقَدْ مَنَّ }الآیۃمیں نبوت وبعثت اور تعلیم و تزکیہ کوبیان فرمایا گیا ہے۔
نبوتِ شریفہ پرولادتِ شریفہ سے زیادہ خوش ہونا چاہیے: اسی وجہ سے فرحت وسرور میں بھی تفاوت ہوگاکہ جس قدر ولادتِ شریفہ پر فرحت و سرور ہو اس سے زائد نبوت شریفہ پر ہونا چاہیے، کیوں کہ قرآن مجید سے ثا بت ہو رہا ہے کہ زیادہ اہتمام کے قابل اور اصل ما بہ المنۃ اور فرح وسرور کا باعث نبوت وبعثت ہے، اسی لیے نبوت وبعثت کا ذکر بہ نسبت ولادت شریفہ کے ذکر کے زیادہ اہتمام کے لائق ہوا، اور نبوت و بعثت ہی اس قابل ہے کہ اس پر سب سے زیادہ مسرت و خوشی کا اظہار کیا جائے۔ شا ید اس فرق کی وجہ سے ہی قرآن کریم میں جس اہتمام اور صراحت کے ساتھ نبوت وبعثت کاذکرفرمایاگیا ہے اس اہتمام و صراحت کے ساتھ آں حضور ﷺ کی ولادت شریفہ کاذکرنہیں فرمایاگیا، بلکہ اس کاذکر اشارتاً یا اجمالاً ہی فرمایاگیاہے، جیساکہ اوپرگزراہے۔
ُُُُُُُُ