اس ماہ میں ایک عملِ مروّج گیارہویں کا ہے جس میں چند امور قابلِ تحقیق ہیں:
اوّل:اس عمل کی حقیقت: سو رواج حال کے موافق یہ عمل حضرت غوثِ اعظم ؒ کے ایصالِ ثواب کے لیے موضوع ہوا ہے اور احقرنے چند ثقات سے سُنا ہے کہ یہ عمل خود حضرت ؒ کا تھا، جس سے آپ ﷺ کو ایصالِ ثواب فرماتے تھے اور چوںکہ کوئی روایت حضرت ؒ کی وفات کی گیارہویں تاریخ میں واقع ہونے کی نہیں، چناںچہ ایک قول ربیع الآخر کی نو تاریخ کا ہے اور ایک قول سترہ تاریخ کا ہے۔ اور شیخ دہلوی ؒ نے ’’ما ثبت بالسنۃ ‘‘میں اول کو راجح اور دوسرے کو بے اصل کہا ہے اور اہلِ اعراس کی عادت تاریخ کی رعایت کی ہوتی ہے۔ سو اوّل تغیر تو اس عمل میں باوجو د دعوائے محبت و اتباع کے لوگوں نے یہ کہا ہے۔
امر دوم: اس عمل میں عقیدت: اس عمل کے اکثر ملتزمین کا یہ اعتقاد ہے کہ اس عمل سے حضرت ؒ کی روح خوش ہو کر ہماری حاجات دنیویہ مالیہ وانفسیہ، مثل: ترقیٔ معاش و حفظ النفس وأولاد من الآفاتمیں امداد فرمادے گی۔ نیز بعض کا یہ اعتقاد ہے کہ اس کے ناغہ کرنے سے حضرت کی روح مبارک ناخوش ہوگی اور اس سے کسی آفت میں ابتلا ہو جاوے گا اور ایسے اعتقادات کا بوجہ استلزام اعتقاد استقلال فی التصرف نقلاً و عقلاً منکر ہونا ظاہر ہے، اسی طرح یہ اعتقاد ہے کہ تعیّنِ تاریخ کی شرط ہے خاص ثمرات مقصودہ کی، اور غیر لازم کو لازم سمجھنا ظاہر ہے کہ خود تجاوز ہے حدودِ شرعیہ سے، اور بعض متکلمین جو ایسے تعینات کی کچھ اصلیں بیان کیا کرتے ہیں سو تحلیل محض و تمحل حجت ہے۔ چناںچہ شیخ دہلوی ؒ نے بعض متأخرینِ مقاربہ سے اوّل کچھ نقل کیا، پھر شیخ متقی ؒ کے قول سے اس پر استدراک فرما دیا کہ لَمْ یَکُنْ فِيْ زَمَنِ السَّلْفِ شَيْئٌ مِنْ ذٰلِکَ۔1
امر سوم: اس عمل میں نیت: ان عاملین میں کل پاکیزگیٔ نیت اغراض و مصالح دنیویہ کی درستی کی ہوتی ہے۔ حالاںکہ طاعت مالیہ کے ایصالِ ثواب کا حاصل باعتبارِ ابتدا کے صدقہ ہے کہ کچھ مال کسی مسکین پر تصدق کیا اور باعتبار انتہا کے ہدیہ ہے کہ اس تصدق کا ثواب کسی روح کو پہنچا دیا جیسا کہ خود وہ میت کچھ صدقہ دیتا اور اس کا ثواب اس کے پاس ذخیرہ رہ جاتا