آپ ﷺ کے ثواب میں عزیمت پر عمل کے ترک کے باعث ذرا بھی کمی نہیں آتی تھی۔ اس لیے خوب یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کسی موقع پر حضور ﷺ سے بیانِ جواز کے لیے نماز کے بعد افطار فرمانا ثابت ہو تو آں حضرت ﷺ کو اس افطار بعد الصلوٰۃ میں بھی تعجیلِ مستحب یعنی نماز سے قبل افطار کرنے کے برابر ثواب ملا ہے۔ جیسا کہ علامہ نووی ؒ نے بحث وضو میں فرمایا ہے:
کما توضأ ﷺ مرۃ مرۃ في بعض الأوقات بیانًا للجواز وکان في ذلک الوقت أفضل في حقہ ﷺ؛ لأن البیان واجب علیہ ﷺ۔1
مگر یہ آں حضرت ﷺ کے ساتھ ہی مخصوص ہے دوسرا کوئی شخص بغیر عذر اگر اس پر عمل کرے گا تو اس کے ثواب میں کمی آجائے گی۔
ایک استدلال پر نظر: اب رہ گئی صحیحین کی وہ روایت جس میں مغرب کی نماز کے اندر حضور ﷺ کے سورۂ طور پڑھنے کا ذکر ہے، اس کو ’’کشف الغمہ‘‘ کی اس روایت کے ساتھ جس میں بعد المغرب افطار کا ذکر کیا گیا ہے (اگر وہ روایت صحیح ہو، ورنہ حضرت انس ؓ کی روایت اس کے صریح معارض ہے، جس میں تصریح ہے کہ انھوں نے حضور ﷺ کو ہمیشہ نماز مغرب سے پہلے ہی افطار کرتے دیکھا ہے) ملا کر یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ تمام وقت تعجیلِ مستحب کے اندر ہے، یہ استدلال بوجوہ ذیل مفیدِ مدّعا نہیں، اوّل تو جن طویل سورتوں کا مغرب میں پڑھنا ثابت ہے اس کے متعلق یہ توجہیہ کی گئی ہے کہ ممکن ہے آپ نے ان سورتوں کا کچھ حصہ پڑھا ہو پوری سورت نہ پڑھی ہو:
وقال الکرماني: یحتمل أن یراد بالسورۃ بعضھا، وإلیہ مال الطحاوي۔2
اور قرأ في المغرب بالطور کے نیچے بین السطور محشی تحریر فرماتے ہیں:
یجوز أن یرید بھا بعضھا۔3
دوسرے یہ کہ سورۂ طور اگر پوری بھی پڑھی ہو تو یہ کیسے ثابت ہوا کہ جس دن کی مغرب میں آپﷺ نے سورۂ طور پڑھی تھی اس روز آپ کا روزہ تھا؟ اس لیے کہ یہ روایت حضرت جبیر بن مطعم ؓ کی ہے جب کہ وہ بدر کے قیدیوں کا فدیہ لے کر آئے تھے اور اب تک مسلمان بھی نہ ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں: میں نے آپﷺ کو مغرب میں سورۂ طورر پڑھتے ہوئے سنا تو میرا دل اڑنے لگا۔ جنگِ بدر ۱۷ یا ۱۸ رمضان کو ہوئی تھی تو وہ فدیہ قیدیوں کا رمضان کے بعد ہی لائے تھے اس وقت آپﷺ کا روزہ کہاں ثابت ہوا؟ اور اگر یہ بھی ثابت ہو جاوے کہ اس دن آپﷺ روزہ سے تھے تو یہ