قیاس درست ہوتا تو صحابہ کرام اور ائمۂ مجتہدین اس سے ضرورکام لیتے اور اس’’ عیدمیلاد‘‘ کو اس سے ثابت کرکے اس پرعمل فرماتے مگرانھوں نے ایسانہیںکیا۔ یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ یہ قیاس بالکل غلط او رناجائز ہے۔
حیرت کا مقام ہے کہ پیرکے دن روزہ رکھنے سے ’’عید میلاد‘‘ کا جواز ثابت کرنے والے ربیع الاول کو توعید میلاد مناتے ہیں حالاں کہ اس تاریخ میں خصوصیت کے ساتھ نبی اکرم ﷺ سے کوئی عمل بھی منقول نہیں ہے، اور ہر پیر کے دن جس میں آں حضرت ﷺ نے روزہ رکھا ہے یہ لوگ اس میں نہ تو عید ہی مناتے ہیں اور نہ روزہ ہی رکھتے ہیں۔
ایک شبہ کا اِزالہ: حضور اکرم ﷺ کے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے موقع پر مدینہ منورہ میں آں حضرت ﷺ کی تشریف آوری کاانتظار تھا، اس لیے کئی روز تک صحابہ کرام ؓ کا وفد مدینہ منورہ سے باہر آپ کی تشریف آوری کے انتظار میں آتارہا۔ اس سے بھی بعض کم فہم لوگوں نے اپنے مقصد یعنی جلوس کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالاں کہ آں حضرت ﷺ کے قدوم میمنت لزوم کے وقت آپﷺ کے استقبال کے لیے اجتماع ہوجانا ایک علیحدہ مسئلہ ہے، اس کو اس عید میلاد کے جلوس سے کیا تعلق ہے؟ اور ان بدفہم لوگوں کویہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا صحابہ کرام ؓ ہرسال ہجرت کے دن جلوس نکالا کرتے تھے؟ یہ استقبال کا جلوس تو پہلے قدوم مدینہ کے وقت ہی ثابت ہے یا غزوات سے واپسی پرا ستقبال کے وقت ایسا ہوا ہے ۔ یومِ ولادت پر توایسانہیں ہوا اور نہ ہی یومِ ہجرت پر ہر سال ایسا ہوتا رہا۔
رسمِ عید میلادپر عقلی کلام: شریعت میں ہرفعل کا ایک سببِ خاص ہوتاہے، جس قدر عبادات شریعت نے مقرر کی ہیں، ان کے اسباب بھی مقرر کیے ہیں، اس سبب اور مُسبَّبِیَّت کی تین صورتیں شریعت میں پائی جاتی ہیں:
ایک یہ کہ سبب میں تکرار ہواور وہ باربار پایاجاتاہو توسبب کے مکرّر ہونے سے مسبب بھی بار بار پایا جائے گا۔ جیسے وقت نماز کے لیے سبب ہے، جب وقت آئے گا نماز بھی فرض ہوجائے گی۔ اسی طرح رمضان روزہ کے لیے سبب ہے، جب رمضان المبارک آئے گا روزہ فرض ہوجائے گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ سبب بھی ایک ہو اور مسبب بھی ایک ہو،کہ جیسے بیت اللہ شریف حج کے لیے، چوںکہ سبب ایک ہے اس لیے حج عمر بھر میں ایک ہی مرتبہ فرض ہے۔ یہ دونوں قسمیں تو مُدرَک بالعقل ہیں (عقل میں آتی ہیں) اس لیے کہ عقل بھی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ سبب کے تکرار اور توحّد سے مسبب متکرر اور متوحدہو۔