۱۲۔ حضرت فاطمہ ؓ ، حضرت علی ؓ، حضرت جعفر ؓ اور حضرت عقیل ؓ اور حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ یا حارث بن عبدالمطلب کی اولاد کو صدقۂ فطر دینا درست نہیں ہے۔1
۱۳۔ صدقۂ فطر سے مسجد، مدرسہ، اسکول، غسل خانہ، کنواں، نلکا اور مسافر خانہ، پُل، سڑک، غرضے کہ کسی طرح کی عمارت بنانا یا کسی میت کے کفن دفن میں خرچ کرنا یا کسی میت کی طرف سے اس کا قرضہ ادا کرنا، درست نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی غریب کو اس کا مالک بنا دیا جائے، پھر وہ اگر چاہے تو اپنی طرف سے کسی تعمیر یا کفن دفن وغیرہ میں خرچ کردے تو جائز ہے۔ 2
۱۴۔ کسی نوکر، خدمت گار، امامِ مسجد، وغیرہ کو ان کی خدمت کے عوض تنخواہ کے حساب میں صدقۂ فطر دینا درست نہیں ہے۔
۱۵۔ جب تک کسی شخص کے صدقۂ فطر کے مستحق ہونے کی تحقیق نہ ہو جائے اس وقت تک اس کو صدقہ نہیں دینا چاہیے۔ اگر بے تحقیق دے دیا پھر معلوم ہوا کہ وہ غریب ہی ہے تب تو ادا ہوگیا، ورنہ دیکھو کہ دل کیا گواہی دیتا ہے، اگر دل اس کے غریب ہونے کی گواہی دے تو ادا ہوگیا ورنہ پھر سے ادا کرے۔3
۱۶۔ ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقۂ فطر بھیجنا مکروہ ہے۔ ہاں اگر دوسرے شہر میں اس کے غریب رشتہ دار رہتے ہوں، یا وہاں کے لوگ زیادہ محتاج ہوں۔ یا وہ لوگ دین کے کام میں لگے ہوئے ہوں، تو ان کو بھیج دیا تو مکروہ نہیں، کیوں کہ طالب علموں اور دین دار غریب عالموں کو دینا بڑا ثواب ہے۔4
احکامِ عیدالاضحی
قربانی کے احکام:
۱۔ جتنے مال پر صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے اتنے مال پر بقر عید کے دنوں میں قربانی کرنا بھی واجب ہے۔ 5اور اگر اتنا مال نہ ہو تو اس پر قربانی واجب تو نہیں ہے لیکن اگر پھر بھی کردے تو بہت ثواب ہے۔
فائدہ: قربانی کے دنوں میں جانور کے ذبح کرنے سے ہی قربانی ادا ہوتی ہے، جانور کے زندہ صدقہ کرنے یا اس کی قیمت کو خیرات کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی، کیوں کہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے اور صدقہ، خیرات علیحدہ ثواب کا کام ہے، اور ظاہر ہے کہ ایک عبادت کے ادا کرنے سے دوسری مستقل عبادت ادا نہیں ہوا کرتی، اس لیے صدقہ خیرات کرنے سے قربانی بھی ادا نہیں ہوتی۔ جیسے: صدقہ یا کوٰۃ ادا کرنے سے نہ حج ادا ہوتا ہے نہ نماز ادا ہوتی ہے۔