کے انتظام کو ضروری نہ سمجھنا چاہیے۔
فائدہ:بعض لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ دوسرے کی دی ہوئی چیز سے روزہ افطار نہیں کرتے، سمجھتے ہیں کہ میرے روزہ کا ثواب روزہ کھلوانے والے کو مل جائے گا۔ یہ غلط خیال ہے، روزہ کھلوانے کا ثواب الگ ملتا ہے، روزہ دار کے ثواب میں اس سے کچھ کمی نہیں آتی، پھر دوسرے کی دی ہوئی چیز سے افطار نہ کرنا خواہ مخواہ کا بخل اور اس کو ثواب سے محروم کرنا ہے۔
انتباہ: آج کل مساجد میں افطاری کے وقت جو ہنگامہ برپا ہوتا ہے وہ سراسر آدابِ مسجد اور اس کے احترام کے خلاف ہے۔ اس و قت بڑوں کی چیخ وپکار اور بچوں کو شور و غل سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اور اکثر بچوں کے ننگے پاؤں ہونے کی وجہ سے مسجد کے نجاست میں ملّوث ہونے کا بھی خطرہ ہوتا ہے جس سے مسجد کو بچانا واجب ہے۔ ’’درمختار‘‘ میں ہے کہ ایسے وقت بچوں کو مسجد میں داخل کرنا مکرہِ تحریمی ہے جب کہ مسجد کے نجس ہونے کا گمان غالب ہو، ورنہ مکروہ تنزیہی ہے:
ویحرم إدخال صبیان و مجانین حیث غلب تنجیسھم وإلا فیکرہ۔ قال العلامۃ: والمراد بالحرمۃ کراھۃ التحریم لظنیۃ الدلیل (إلخ)، وعلیہ فقولہ: وإلا فیکرہ أي تنزیھًا۔1
پھر کھانا2تقسیم کرتے وقت تمام صفیں اور فرشِ مسجد کھانے سے ملوث ہو جاتا ہے۔ ان سب امور کی اصلاح واجب ولازم ہے۔ اگر ذیل میں درج شدہ ہدایات پر سختی سے عمل کیا جاوے تو امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ان خرابیوں کا انسداد ہو جائے گا۔
ایک تو اس کا خیال رکھا جاوے کہ مسجد کے اندر کھجور یا کسی خشک چیز کے علاوہ چاول یا دوسری کوئی تر چیز اپنی افطاری کے لیے نہ تو خود مسجد میں لے کر آئیں اور نہ اس قسم کی کوئی دوسری چیز افطاری کے لیے مسجد میں بھیجیں۔ کیوںکہ ایسی ہی چیزوں کے استعمال کرنے اور تقسیم کرنے میں عام طور پر مسجد کا فرش اور صفیں وغیرہ خراب ہوتی ہیں اور اسی طرح طعام کی بھی بے ادبی ہوتی ہے۔
دوسرے کم عمر بچوں کو جو کچھ تقسیم کرنا ہو مسجد سے باہر ہی دے دیا جائے، ان کو مسجد کے اندر نہ داخل ہونے دیا جائے۔ ایک بات یہ خیال میں رہے کہ جس قدر طعام اس نیت سے مسجد وغیرہ میں بھیجا جاوے گا کہ بچوں وغیرہ بے روزہ داروں