جیسا کہ ’’ آثار السنن‘‘ میں بحوالہ ابن ابی شیبہ حضرت علیؓ کا معمول مروی ہے۔5
نیز ’’سننِ بیہقی‘‘ میں حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے یہی روایت نقل کی ہے کہ آں حضرت ﷺ یومِ عرفہ کی فجرسے آخر ایام تشریق کی عصرتک تکبیر پڑھاکرتے تھے۔ 1
نماز عیدالاضحی کے احکام
عید اور بقرعید کی نماز شہر اور قصبہ اور اس بڑے گائوں کے لوگوں پرواجب ہے جو قصبہ کے مشابہ ہو، جیسا کہ جمعہ۔ اور جس طرح جمعہ چھوٹے گائوں میں جائز نہیں اسی طرح عیدین کی نماز بھی جائز نہیں، اس لیے چھوٹے گائوں میں ہرگزنہ پڑھی جائے۔2 اور بقرعید کے روز سنت یہ ہے کہ نمازِ عید سے پہلے کچھ کھائیں پییں نہیں۔ جولوگ قربانی کریں ان کے لیے یہ مسنون ہے کہ نما زکے بعد بھی نہ کھاویں بلکہ قربانی کے بعد اپنی قربانی میں سے کھاویں۔3 اور نماز سے پیشتر غسل، مسواک کرکے اپنے موجودہ کپڑوں میں سے عمدہ ترین کپڑے پہنیں اور خوش بو لگائیں اور جہاں تک ہوسکے جلدی عید گاہ پہنچیں اور پیدل جاویں۔ اور راستہ میں بآوازِ بلند تکبیر کہتے رہیں۔ تکبیر وہی جو ایّامِ تشریق کے حاشیہ میں گزری۔ یعنی اَللّٰہُ أَکْبَر اَللّٰہُ أَکْبَرُ لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ اَللّٰہُ أَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔
اور نماز کے بعد بلند آواز سے تکبیر پڑھیں کہ بعض فُقَہا نے اس کو واجب کہا ہے۔ اور خطبہ کے وقت اسی طرح صف بستہ چپ چاپ بیٹھے رہیں، اکثرلوگ خطبہ نہیں سنتے وہ بُراکرتے ہیں اور ترکِ سنتِ متوارثہ کے وبال میں گرفتار ہوتے ہیں۔ اور جولوگ خطبہ کے وقت بولتے ہیں سخت گناہ گار ہوتے ہیں، کیوںکہ اس وقت چپ رہنا واجب ہے۔ پھر جب واپس ہوں تو جس راستے سے گئے تھے اس راستہ سے نہ آویں، بلکہ دوسرے راستہ سے لوٹیں اور واپسی میں اگر کسی چیز پر سوار ہوجائیں تو مضایقہ نہیں۔
تنبیہ اوّل: بعض جگہ دستورہے کہ جب عید گاہ میں مرد نماز کوجاتے ہیں تو عورتیں جمع ہوکراپنے گھروں میں نفل نماز پڑھتی ہیں، پھر بعض جگہ تو جماعت کرتی ہیں اور بعض جگہ تنہا پڑھتی ہیں۔ حالاں کہ دونوں طر ح کراہت سے خالی نہیں۔ کیوں کہ نمازِ عید سے قبل نفل پڑھنا مکروہ ہے، اور جماعت ہونے سے زیادہ کراہت ہوجاتی ہے کیوں کہ عورتوں کی جماعت بھی مکروہ ہے اور اہتمام سے نفل کی جماعت بھی مکروہ ہے۔ غرض جماعت میں تین مکروہات جمع ہوجاتے ہیں۔
و نیز ایک گناہ بے پردگی کاہوتاہے کیوں کہ یہ گمان کرتی ہیں کہ سب مرد چلے گئے اس لیے بے فکر نکلتی ہیں