۱۔ رہایشی مکان کے علاوہ کوئی زائد مکان ہو تواس کو بیچ کرحج کرنا فرض ہے (یعنی جب کہ اس کی قیمت میں حج ہوسکے)۔ اسی طرح کسی کے پاس غلام ہو اور اس سے خدمت لینے کی ضرورت نہ ہو تب بھی فرض ہے کہ غلام کو فروخت کر کے حج کرے (یہی حکم جب ہے جب کہ ضرورت سے زائد گھوڑا وغیرہ کسی کے پاس ہو)۔
لیکن اگر کسی کے پاس صرف ایک مکان ہو اور وہ اتنا بڑا ہو کہ ایک حصہ اس کی رہایش کے لیے کافی ہے اور باقی کی قیمت حج کے واسطے کافی ہوسکتی ہے تو اس کاحصہ فروخت کرناضروری نہیں ۔ اسی طرح اگرکسی کے پاس بہت قیمتی مکان ہے کہ اس کی قیمت میں بھی حج ہوسکتاہے اور معمولی مکان بھی مل سکتا ہے تب بھی اس کے ذمہ حج فرض نہیں ہے، گو افضل یہی ہے کہ ان دونوں صورتوں میں حج کرے۔
۲۔ اگر کسی کے پاس قیمتی کپڑے ہیںجو استعمال میں نہیں لائے جاتے تو لازم ہے ان کو فروخت کر کے حج کیا جائے۔ زائد برتنوں کا بھی یہی حکم ہے، اور زیور تو شرعاً بالکل نقد کے حکم میں ہے۔
۳۔ اگرکسی جاہل کے پاس کتابیں ہوں تو ان کو حج کے واسطے فروخت کرنا ضروری ہے۔ البتہ اگر عالم کے پاس فقہ کی کتابیں ہوں1 توان کو فروخت کرنا ضروری نہیں اور کتبِ تفسیر و حدیث وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے، اور ’’شامی‘‘ میں ہے کہ علومِ آلیہ یعنی صرف و نحو وغیرہ کی کتابیں بھی کتبِ دینیہ کے ساتھ شمار کی جائیں گی۔
اور طب و نجوم (وغیرہ) کی کتابوں کو فروخت کرناہر حال میں ضروری ہے خواہ وہ جاہل کے پاس ہوں یااہلِ علم کے، اور گو وہ استعمال ہی میں آتی ہوں، اور بظاہرمعلوم ہوتا ہے کہ منطق، فلسفہ وغیرہ کی کتابوں کا وہی حکم ہے جو طب کی کتابوں کا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
۴۔ اگرکسی دکان دار کے پاس اتنامالِ تجارت ہے کہ اگر کچھ مال فروخت کر کے حج ہوسکتا ہے اور باقی ماندہ مال سے بقدرِ ضرورت تجارت ہوسکتی ہے، تو حج کرنا فرض ہے۔
۵۔ جس پیشہ ور کے پاس ضروری اوزار وغیرہ کے علاوہ زائد سامان اتنا ہو کہ اس کی قیمت سے حج ہو سکے تب بھی حج فرض ہے۔
۶۔ جس زمین دار کے پاس اتنی زمین ہے کہ اگرمصارف ِحج کی مقدار فروخت کردے تو باقی زمین کی آمدنی سے گزر ہو سکتا ہے تو اس پر زمین فروخت کر کے حج کرنا لازم ہے۔
۷۔ کاشت کارکے پاس اگرہل اور بیل وغیرہ کے علاوہ اتناسامان ہوکہ اس کی قیمت مصارفِ حج کے لیے کافی ہوسکتی ہے تو اس کے لیے بھی لازم ہے کہ زائد سامان کو فروخت کر کے حج کرے۔ فقط ۔ واللّٰہ أعلم۔