میں واردہوئی ہیں۔
۵۔ چناں چہ آںحضرت ﷺ نے شعبان کی پندرہویں رات کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس رات میں وہ سب بنی آدم بھی لکھ لیے جاتے ہیں جو اس سال میں مریں گے، اور اسی رات میں ان کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں، اور اسی میں ان کے رزق نازل ہوتے ہیں۔1
فائدہ: اعمال اٹھائے جانے سے مرادان کا پیش ہوناہے، اور رزق نازل ہونے سے مرادیہ ہے کہ اس سال میں جورزق ملنے والا ہے وہ سب لکھ دیاجاتاہے، اور یہ سب چیزیں پیشتر سے لوح محفوظ میںلکھی ہوئی ہیں، مگر اس رات کو لکھ کر فرشتوں کے سپرد کردیاجاتاہے ۔ واللّٰہ أعلم۔
۶۔ اور ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ اللہ تعالیٰ متوجہ ہوتا ہے شعبان کی پندرہویں رات میں، پس مغفرت فرمادیتا ہے سب مخلوق کی مگر شرک اورکینہ والے شخص کے لیے (مغفرت نہیں فرماتا)۔2
ایک اور روایت میں ہے: مگردوشخص ،ایک کینہ رکھنے والااورایک قتلِ ناحق کرنے والا۔ اور ایک روایت میںہے: یا قطع رحم کرنے والا۔3اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نظر(رحمت )نہیں کرتا ہے اس رات میں (بھی ) مشرک کی طرف، اور نہ کینہ والے کی طرف، اور نہ قاطع رحم (یعنی رشتہ ناتہ والوں سے بلاوجہ شرعی تعلق توڑنے والے) کی طرف، اور نہ پائے جامہ (وغیرہ )ٹخنے سے نیچے لٹکانے والے کی طرف، اور نہ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کی طرف، اور نہ ہمیشہ شراب پینے والے کی طرف۔ (البتہ اگر کوئی توبہ کرچکا ہے تو رحمتِ خداوندی اس پر بھی متوجہ ہوجاتی ہے)۔ 4
ان کے علاوہ اور گناہ گاروں پر بھی نظرِرحمت نہ ہونا دوسری روایتوں میں آیا ہے ۔پس سب گناہوں سے توبہ کرنا چاہیے۔سب روایتوں پر نظرڈالنے سے احقرکی فہمِ ناقص میں یہ آتاہے:کبائربدوں توبہ معاف نہیں ہوتے اور صغائر سب اس رات کی برکت سے حق تعالیٰ شانہ معاف کردیتا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
۷۔ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ (اس رات میں )کلب کی بکریوں کے عددسے بھی زیادہ (لوگوں )کی مغفرت فرمادیتاہے۔ رواہ ابن أبي شیبۃ والترمذي وابن ماجہ والبیہقي۔ قال في ’’جامع الأصول‘‘: وزاد رزین :’’ممن استحق النار‘‘ ولیس فیہ حدیث في الباب إلا ہٰذا، وجاء نحوہ بطرق متعددۃ۔
یعنی ایک روایت میںیہ بھی آیا ہے کہ وہ لوگ اتنی کثیرتعداد میں ایسے ہیں جو (ارتکابِ معاصی کے سبب)عذاب النار کے مستحق ہوچکے ہیں۔