سب سے زیادہ جلد افطار کرتا ہے۔) شک نہیں کہ صورتِ مذکورہ میں زید کا افطار جلد تر ہوا، تو یہی طریقہ زیادہ پسندیدہ و مرضی ربِ اکبر ہوا۔ جل جلالہ و عم نوالہ۔
عادتِ کریمہ تھی کہ غروب کے قریب کسی کو حکم فرماتے کہ بلندی پر جا کر آفتاب کو دیکھتا رہے۔ وہ نظر کرتا ہوتا اور حضور اقدس ﷺ اس کی خبر کے منتظر ہوتے اُدھر اس نے عرض کی کہ سورج ڈوبا اِدھر حضور ﷺ نے خرما وغیرہ تناول فرمایا۔
اس کے بعد حدیث سہل ؓ اور حدیث ابوالدرداء ؓکو جس کا ترجمہ اوپر کیا گیا ہے حاکم اور’’ طبرانی کبیر‘‘ سے بالفاظ نقل کرنے کے بعد ’’کشف الغمہ‘‘ سے نقل کرتے ہیں:
کانت عائشۃؓ تقول: رأیت رسول اللّٰہ ﷺ وہو صائم یترصد غروب الشمس بتمرۃ فلما توارت ألقاہا في فیہ۔
اس کے بعد لکھتے ہیں۔
یہ تینوں حدیثیں بھی اس تقدیمِ افطار کا پتہ دیتی ہیں کہ اخبارِ افطار میں اصلاً فصل نہ تھا۔ کما لا یخفیٰ۔1
فاضل بریلوی اتنی تاخیر کو بھی پسند نہیں کرتے کہ غروب کے بعد مختصر طور پر دعائے افطار پڑھ کر افطار کیا جائے بلکہ ان کے نزدیک پسندیدۂ رب العزت یہ ہے کہ غروب کے بعد فوراً افطار کر لیا جائے۔ افطار کے بعد دعا پڑھی جائے۔ افطار میں تاخیر کرنے والوں اور ان لوگوں کو ٹھنڈے دل سے اس پر غور کرنا چاہیے۔ جن کو غروب ہوجانے کے باوجود بھی افطار کے وقت ہونے میں شک ہی رہتا ہے اور اس شک کو مٹانے کے لیے غروب کے بعد دس بارہ منٹ تک تاخیر کرکے افطار کرتے ہیں۔
علامہ ابن حجر ؒ نے اپنے زمانہ کی اس بدعت تعجیلِ سحور اور تاخیرِ افطار کے متعلق کیا خوب فرمایا ہے:
من البدع المنکرۃ ما أحدث في ھذا الزمان من إیقاع الأذان الثاني قبل الفجر بنحو ثُلُث ساعۃ في رمضان، وإطفاء المصابیح التي جعلت علامۃ لتحریم الأکل والشرب لمن یرید الصیام؛ زعمًا ممن أحدثہ أنہ للاحتیاط في العبادۃ، ولا یعلم بذلک إلا آحاد الناس، وقد جرّھم ذلک إلٰی أن صاروا لا یؤذنون إلا بعد الغروب بدرجۃ لتمکین الوقت فیما زعموا، فأخروا الفطر وعجلوا السحور وخالفوا السنۃ، فلذلک قلّ عنھم الخیر وکثر فیھم الشر، واللّٰہ المستعان۔1
مسئلہ:کھجور یا چھوہارے سے روزہ کھولنا بہتر اور افضل ہے اگر میسر ہو، ورنہ پانی سے افطار کرلے۔ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ افطا رکرنے والے کو چاہیے کہ کھجور پر افطار کرلے، یقینا وہ سببِ برکت اور زیادتی ثواب کا باعث ہے، اگر کھجور نہ ملے تو پانی پر افطار کرلے بے شک وہ پاک کرنے والا ہے۔ آںحضرتﷺکا یہ معمول اوپر گزر چکا ہے کہ نمازِ مغرب