کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ افطار جلدی کرنے کے اندر اپنے ضعف اور عجز و درماندگی کا اظہار ہے، بخلاف تاخیر (دیر کرنے) کے کہ اس میں ایک قسم کی قوت کا صورۃً دعویٰ ہے اور تعجیلِ افطار کا حکم اس لیے بھی مناسب ہے کہ روزہ دار خدا تعالیٰ کا مہمان ہے اور افطاری اس کے لیے حق تعالیٰ کی طرف سے بطورِ مہمانی کے عطا کی گئی ہے اور عطائے حق کے قبول کرنے میں تاخیر کرنا مناسب نہیں ہے۔ کیوںکہ یہ تاخیر اس سے اعراض و روگردانی اور استغنا کے مشابہ ہے۔ ایامِ تشریق میں روزہ کے حرام ہونے کی وجہ مہمانیٔ حق سے اعراض ہی کو بتلایا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے تعجیلِ افطار کو بھلائی اور دین کے غالب ہونے کی علامت فرمایا ہے۔
فرماتے ہیں: لوگ ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔ اس لیے کہ یہود افطار کرنے میں دیر کرتے ہیں۔ اور حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندوں میں زیادہ محبوب مجھے وہ ہے جو افطار میں جلدی کرتا ہو۔
فائدہ: مطلب یہ ہے کہ غروبِ آفتاب پر یقین ہوجانے کے بعد روزہ افطار کرنے میں دیر نہ لگاوے ۔ لیکن غروبِ آفتاب میں شک ہونے کی صورت میں ہر گز افطار نہ کرے۔ تعجیل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام دن کے روزہ کی محنت کو شک میں ڈال دیا جائے اور ایسے وقت میں افطار کر لیا جاوے کہ ابھی غروبِ آفتاب پر پورا یقین نہ ہوا ہو۔
فقہا نے قاعدہ لکھا ہے کہ اگر کسی عبادت کے وقت کے داخل ہونے میں شک ہو تو ایسی حالت میں اس عبادت کو ادا کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ ادائیگی کے بعد اس کے وقت کے اندر ہونے کا یقین حاصل ہوگیا ہو۔ کیوںکہ وقت کے داخل ہونے کا یقین اور اس پر اعتماد عبادت کے شروع کرنے سے پہلے حاصل ہونا شرط ہے۔1
آبادی کے اندر آفتاب کے غروب ہونے کی علامت علامہ قطب الدین ؒ نے ’’مظاہرِ حق‘‘ میں یہ لکھی ہے کہ مشرق کی جانب سیاہی بلند ہوکر اس جگہ تک پہنچ جائے جہاں سے صبح صادق شروع ہوتی ہے، سیاہی کا آسمان کے بیچوں بیچ پہنچنا شرط نہیں۔2
سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ہی مشرق کی جانب سیاہی کا بلند ہونا شروع ہو جاتا ہے جس کو حدیث میں اِقبالِ لیل سے تعبیر فرمایا ہے اوراسی کو افطار کے وقت ہونے کی علامت فرمایا ہے۔ ورنہ سورج کے غروب ہونے کا یقین یا تو خود غروب ہوتے ہوئے اس کو دیکھ کر ہوتا ہے یا پھر کم سے کم ایک عادل شخص اگر سورج کے غروب ہونے کی خبردے تو بھی اس کے