میں بھیج دیا اور اس کے متعلق اپنے بھائی جناب عبداﷲ بن زبیرؓ کو لکھ بھیجا کہ مختار کی بیوی کہتی ہے کہ وہ نبی تھا۔ اس سے کیا سلوک کیا جائے۔
حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ نے جو ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے خواہرزادہ تھے لکھ بھیجا کہ اگر اس کا یہی عقیدہ ہے تو موت کے گھاٹ اتاردی جائے۔ چنانچہ رات کی تاریکی میں اسے حیرہ اور کوفہ کے درمیان لے گئے۔ پولیس کے ایک آدمی نے جس کا نام مطر تھا، تلوار کے تین ہاتھ رسید کئے۔ عمرہ نے عرب کے دستور کے بموجب اپنے اعزہ کو پکارا۔ عمرہ کے بھائی ابان بن نعمان نے یہ فریاد سنی تو فوراً مطر کی طرف جھپٹا اور زور سے اس کے تھپڑ رسید کیا۔ مطر اس کو پکڑ کر مصعب کے پاس لے گیا۔ انہوں نے حکم دیا کہ اس کو چھوڑ دو۔ کیونکہ یہ اپنی ہمشیرہ کے قتل کا وحشت انگیز منظر دیکھ کر کسی طرح برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ (ابن جریر طبری وابن اثیر)
۴… حارث کذاب دمشقی
حارث بن عبدالرحمن دمشقی ایک قرشی کا غلام تھا۔ حصول آزادی کے بعد یاد الٰہی کی طرف مائل ہوا اور بعض اہل اﷲ کی دیکھا دیکھی رات دن عبادت الٰہی میں مصروف رہنے لگا۔ سدّرمق سے زیادہ غذا نہ کھاتا۔ کم سوتا، کم بولتا اور اس قدر پوشش پر اکتفا کرتا جو ستر پوشی کے لئے ضروری تھی۔ اگر یہ زہد وورع، ریاضتیں اور مجاہدے کسی مرشد کامل کے زیرہدایت عمل میں لائے جاتے تو اسے قال سے حال تک پہنچا دیتے اور معرفت الٰہی کا نور کشور دل کو جگمگادیتا۔ لیکن چونکہ غلام احمد قادیانی کی طرح بے مرشد تھا۔ شیطان اس کا رہنما بن گیا۔
شیاطین کا طریق اغوا
شیاطین کا معمول ہے کہ وہ طرح طرح کی نورانی شکلوں میں بے مرشد ریاضت کشوں کے پاس آ آکر انواع واقسام کے سبز باغ دکھاتے ہیں۔ کسی سے کہتے ہیں کہ تو ہی مہدی موعود ہے۔ کسی کے کان پھونکتے ہیں کہ آنے والا مسیح تو ہی ہے۔ کسی کو نبوت ورسالت کا منصب بخش جاتے ہیں۔ کسی کو حلال وحرام کی شرعی پابندیوں سے مستثنیٰ کر جاتے ہیں۔ بے مرشد عابد جو علمی بصیرت میں کامل نہیں ہوتا۔ اس نورانی شکل کو شیطان نہیں سمجھتا۔ بلکہ اپنی حماقت سے یہ یقین کر لیتا ہے کہ اسے خود اس کے معبود برحق نے اپنا جمال مبارک دکھایا ہے اور ہم کلامی کا شرف بخشاہے۔ اسی ذات برتر نے اسے نبوت یا مسیحیت یا مہدویت کے منصب جلیل پر سرفراز فرمایا ہے۔