مقام کی تلاش کی تھی جس میں کوئی غیر نہ ہو۔ جہاں سے وہ تبلیغ اسلام کے کام کو جاری رکھ سکیں۔ پس یہ کام جس کی تکمیل کے خلیفہ متمنی تھے کہ ان کو ایسی جگہ مل جائے جہاں وہ ہی ہوں ان کا قانون وہاں چل سکے اور اپنی ریاست کا قیام عمل میں لایا جاسکے اور قادیان میں بھی اس لحاظ سے کامیابی کا حصول اپنے لئے مشکل سمجھتے تھے۔ مگر ربوہ میں ان کو یہ بات میسر آگئی ہے وہ یہ ریاست اپنی پوری شان سے قائم کر چکے ہیں۔ کیونکہ اس میں سوائے ان کے قادیانی مریدوں کے اور کوئی آباد نہیں۔ پاکستان میں صرف ایک حصہ ہے جس میں ایک ہی فرقے کے لوگ بستے ہیں اور وہ ایک آہنی تنظیم میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے ملک کا قانون ان کے لئے حرف غلط سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ ایسی آئین سوز کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی پریس ایک عرصہ سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے۔ یعنی اس میں دوسرے لوگ ایک عمرانی منصوبے کے ماتحت بسائے جائیں۔ تاکہ محمودی آمریت قانون کے رستے میں حائل نہ ہو سکے۔ لیکن ابھی تک یہ مطالبہ صدابصحرأ ثابت ہورہا ہے۔
نظام بینکاری
ربوہ میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے بالمقابل مرزامحمود کی زیرنگرانی ایک غیرمنظور شدہ بینک بھی جاری ہے۔ جسے خلیفہ کی خود ساختہ اصطلاح میں امانت فنڈ کہا جاتا ہے۔ ربوہ کے اس جعلی بینک کی طرف سے باقاعدہ چیک بک اور پاس بک بھی جاری کی جاتی ہے۔ جن کا ڈیزائن عام مروجہ بینکوں کی چیک بکوں اور پاس بکوں سے ملتا جلتا ہے۔ سطحی نظر سے کوئی شخص ان کے متعلق یہ گمان نہیں کر سکتا کہ یہ چیک بک یا پاس بک کسی جعلی اور گورنمنٹ کے غیرمنظور شدہ بینک کی ہے۔ اس بینک کے متعلق بعض اعلانات پڑھئے: ’’چالیس سال سے قائم شدہ صیغۂ امانت صدر انجمن احمدیہ اس صیغہ کو حضرت امیرالمؤمنین خلیفہ المسیح ایدہ اﷲ کی بابرکت سرپرستی کے علاوہ بفضلہ تعالیٰ اس وقت مشہور انگلش بینک سے تربیت یافتہ ٹرینڈ اور مخلص نوجوانوں کی خدمات حاصل ہیں۔ آپ کا یہ قومی امانت فنڈ اس وقت خدا کے فضل ورحم سے ملکی بینکوں کے دوش بدوش اپنے حساب داران امانت کی خدمت پورے اخلاص اور محنت سے سرانجام دے رہا ہے۔ تقسیم ملک کے بعد اس صیغہ نے جو شاندار خدمات سرانجام دی ہیں۔ وہ بھی آپ سے پوشیدہ نہیں۔ اس لئے اب آپ کو اپنا فالتو روپیہ ہمیشہ صیغہ امانت صدر انجمن احمدیہ میں ہی جمع کروانا چاہئے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۱۹؍مارچ ۱۹۵۷ئ)