وغیرہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہواکہ واؤ کا حرف لفظ ریا کے درمیان ہے۔ گویا وحی کو بھی ریاکاری کا آلۂ کار بنایا جارہا ہے۔
مثل برسات برسات ہیں چھما چھم رؤیا
واؤ بھی بین ریا ہے ہمیں معلوم نہ تھا
لومڑی کون ہے؟
گذشتہ باب میں میں نے رؤیا وکشوف کے اصولی پہلو پر بحث کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شاطر سیاست کے رؤیا وکشوف کا عملی پہلو سے بھی تجزیہ کروں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے۔ بعض خواب ہر شخص کو سچے بھی آجاتے ہیں۔ اس میں فخر کی کوئی بات نہیں ہے۔ شاطر سیاست کو بھی بعض خواب سچے آجاتے ہیں یا وہ بعض خواب خود بنالیتے ہیں۔ جو حالات کو دیکھ ہر شخص بیان کر سکتا ہے۔ ذیل میں ان کا ایک خواب درج کرتا ہوں۔ تاکہ قارئین کو معلوم ہو کہ ان کے خواب کیا چیز ہیں اور وہ اپنے مریدوں کو بے وقوف کس طرح بناتے ہیں۔
۱۹۵۶ء میں جب ان پر فالج کا حملہ ہوا اور انہیں محسوس ہوا کہ وہ اب چند دنوں کے مہمان ہیں تو انہوں نے اپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنانے کے لئے اپنے خاندان کے بعض لوگوں کو جمع کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ جماعت میں ان کے بیٹے کے جس قدر مخالف ہیں۔ ان کو جماعت سے خارج کر دیا جائے۔ تاکہ جانشینی کے لئے راستہ صاف ہو جائے۔ سو انہوں نے ایک فتنہ خود گھڑا اور اپنے بیٹے کے مخالفین پر برسنا شروع کر دیا اور انہیں ایک ایک کر کے جماعت سے خارج کر دیا۔ اس موقعہ پر انہوں نے ۱۹۴۵ء کا ایک رؤیا نکالا اور اسے مخرجین میں سے ایک شخص پرچسپاں کیا اور ’’۱۹۵۴ء کا ایک رؤیا شاندار طریق سے پورا ہوگیا‘‘ کا عنوان دے کر جلی حروف میں شائع کر دیا۔ وہ رؤیا حسب ذیل ہے: ’’میں نے دیکھاکہ ایک مجلس میں حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) ہیں۔ میں ہوں اور کچھ اور دوست ہیں۔ میں اور حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) آمنے سامنے دوزانو بیٹھے ہیں۔ اتنے میں ایک شخص آیا جو ہندوستانی معلوم ہوہوتا ہے۔ اس نے آکر حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) سے اجازت لی کہ میں کچھ سنانا چاہتا ہوں۔ آپ کی اجازت سے اس نے اپنے فارسی اشعار سنانے شروع کر دئیے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑا قادر الکلام شاعر ہے۔ پہلے اس نے ایک قصیدہ سنایا جس میں حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کے مناقب… بیان کئے گئے ہیں اور کچھ میری مدح کی گئی ہے۔ اس تمام عرصہ میں میں اور حضرت مسیح موعود آمنے سامنے دوزانو بیٹھے رہے۔ لیکن باقی لوگ شاعر کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے۔ پہلے