M
دیباچہ
تقدس کے جھوٹے دعویدار دو قسم کے لوگ گذرے ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے الوہیت، نبوت، مسیحیت یا مہدویت وغیرہ قسم کاکوئی دعویٰ کیا اور جلد یا بدیر فرمانروایان اسلام کی گرفت میں آکر اپنے کیفر کردار کو پہنچے۔ دوسرے وہ جنہوں نے کسی ایسی سرزمین میں اپنے دجل کا جال پھیلایا جو اسلامی فرمانرواؤں کی دسترس سے باہر تھی۔
اس کتاب میں صرف ان لوگوں کے حالات زندگی معرض تسوید میں آئے ہیں جنہوں نے کسی اسلامی سلطنت میں دام تزویر بچھا کر خلق خدا کو ورطۂ ہلاکت میں ڈالا اور اسلامی حکومتوں نے ان کے ناپاک وجود کو اپنی تیغ سیاست سے مسّاحل کر کے انہیں زندگی کی رسوائی سے نجات بخشی۔
غلام احمد قادیانی کا تعلق موخرالذکر جماعت سے ہے اس لئے اس کے حالات یہاں درج نہیں ہوئے۔ چونکہ وہ ہندوستان کی انگریزی حکومت کی پناہ میں تھا۔ کوئی اسلامی حکومت اس پر قابو نہ پا سکی۔ اس نے امیر عبدالرحمن خان والئی افغانستان کو ایک مکتوب بھیج کر قبول مرزائیت کی دعوت دی تھی اور امیر مرحوم نے اس کے جواب میں لکھا تھا کہ تم بذات خود یہاں آکر ہمیں تبلیغ کرو۔ اگر تمہارا دعویٰ اسلامی تعلیمات کے معیار پر پورا اترے گا تو نہ صرف میں بلکہ افغانستان کی ساری رعایا بھی تمہارے حلقہ ارادت میں داخل ہو جائے گی۔ مگر چونکہ غلام احمد کابل جانے کے انجام سے واقف تھا۔ اس لئے وہاں جانے کی اسے جرأت نہ ہوئی۔ غلام احمد کی طرح اور بھی بہت سے خود ساختہ نبی تھے جو مسلمان حکمرانوں کی گرفت سے محفوظ رہے۔ اس تالیف میں دو مدعیان خدائی، پندرہ مدعیان نبوت، چار مدعیان مسیحیت، چار مدعیان مہدویت، ایک مدعی امامت اور ایک مدعیہ مظہر فاطمہ زہراء کے حالات درج ہوئے ہیں۔ مدعیان مسیحیت میں سے دو شیخ بھیک مہدوی اور ابراہیم بزلہ مہدوی مدعیان مسیحیت کا تذکرہ حاجی محمد خراسانی کے واقعات کے ضمن میں اس لئے حوالہ قرطاس ہوا کہ یہ دونوں دوسرے مدعیوں کی طرح موت کے گھاٹ اتارے گئے تھے۔ اس رسالہ کے مطالعہ سے ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ اغوائے خلق کرنے والا جھوٹا مدعی اسلامی حکومتوں کے کس سلوک کا مستحق ہے۔ ابوالقاسم رفیق دلاوری، لاہوری!