(۲۳)یہ فالج جیسی بیماری میں مبتلا ہوا جس کے متعلق (مرزاغلام احمد) نے کہا تھا کہ فالج لعنتی بیماری ہے۔
(۲۳)وہ زندگی بھر اس قسم کی وباؤں سے محفوظ رہے۔ بلکہ ان کے قرب وجوار میں بھی ایسی وبا کبھی نازل نہیں ہوئی۔
(۲۴)اس نے قادیان بھی اپنے ہاتھوں سے دے دیا۔
(۲۴)انہوں نے لاتعداد فتوحات سے دنیا کو اپنی شجاعت کا قائل کر لیا۔
(۲۵)یہ صبح کی نماز کے وقت سویا رہتا ہے اور نوکر کے جگانے پر کہہ دیتا ہے کہ ’’پڑھادی جائے۔‘‘
(۲۵)وہ لوگوں کے گھروں پر جاکر انہیں تہجد کی نماز کے لئے خود جگایا کرتے تھے۔
کیاان خصوصیات کی روشنی میں بھی کوئی ذی فہم شخص شاطر سیاست کے متعلق مثیل عمرؓ ہونے کا تصور کر سکتا ہے۔ بلکہ ان کو مثیل عمرؓ قرار دینا حضرت عمرؓ کے ساتھ دشمنی اور انہیں گالی دینا ہے۔ جسے کوئی مسلمان بھی ایک لمحہ کے لئے برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر آج ہم خاموش رہے اور… اس کاکوئی حل نہ سوچا توممکن ہے کہ کل کوئی بازاری عورت امہات المؤمنین سے اپنی مماثلت کا دعویٰ کر دے۔ (نعوذ باﷲ) پس ظاہر ہے کہ اس قسم کی اجازت دینااور اس قسم کے دعویٰ پر خاموشی اختیار کرنا بے غیرت ہونے کا کھلا اقرار کرنا ہے۔ اگر اس وقت شاطر سیاست کوحضرت عمرؓ کے صحیح مقام کا احساس نہیں تو کم از کم ہمیں تو حضرت عمرؓ کے مقام پر پاس ہے اور اگر ہم نے آج حضرت عمرؓ کی عزت واحترام کا احساس نہ کیا تو ہم گنہگار بن کر روز جزا جوابدہ ہوں گے۔
نظر بلند نظر کامقام اس سے بلند
کوئی مقام نہ تھا میر کارواں کے لئے
رؤیا وکشوف کا دباؤ
انسان کی فطرت میں ایک خوف کھانے والی حس ہے اور انسان اﷲتعالیٰ کے وجود کا قائل ہونے کے بعد جنت اور جہنم کے نظریات کے پیش نظر اﷲ تعالیٰ کے خوف سے پاکیزگی اور صالح اعمال بجا لانے کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کرتا ہے۔ شاطر سیاست کو انسان کی اس کمزوری کا علم ہے۔ چنانچہ وہ اپنے بھولے بھالے مریدوں کو رؤیا وکشوف سنا سناکر ڈراتے رہتے ہیں اور عاقبت کا خوف دلا کر اپنا الّو سیدھا کرتے ہیں۔ آخری شادی جو انہوں نے چند ہی سال قبل کی تھی وہ بھی رؤیا کے ذریعہ ہی معرض وجود میں آئی تھی۔ ایک دن خطبہ جمعہ میں انہوں نے کہا کہ رات میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میرانکاح فلاں لڑکی سے ہورہا ہے۔ اس کی خصوصیات فلاں فلاں ہیں۔ اگر اس کے باپ نے اپنی لڑکی کا نکاح میرے ساتھ نہ کیا تو اﷲتعالیٰ کا عذاب اس پر نازل ہوگا۔ چنانچہ اس لڑکی کے باپ نے اﷲتعالیٰ کے عذاب سے گھبرا کر اور حضور پرنور کے رؤیا سے ڈر