کا وعدہ نہیں کیا تھا اور یہ نہیں کہا تھا کہ ہم دشمن کو مار بھگائیں گے۔ مختار نے کہا کیا تم نے کتاب اﷲ میں یہ آیت نہیں پڑھی۔ ’’ویمحوا اﷲ ما یشاء ویثبت وعندہ ام الکتب‘‘ (حق تعالیٰ جس حکم کو چاہتا ہے محو کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بحال رکھتا ہے اور اسی کے قبضۂ قدرت میں لوح محفوظ ہے)
قصر امارت کا محاصرہ اور محصورین کی بدحالی
مختار اپنے بیس ہزار پیرو حروراء لے گیا تھا۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ماری گئی۔کچھ کوفہ واپس آکر اپنے اپنے گھروں میں روپوش ہو گئے اور آٹھ ہزار دام افتادہ مختار کے پاس قصر میں جا داخل ہوئے۔ مصعبؒ نے کوفہ آکر قصر کا محاصرہ کر لیا۔محاصرہ قریباً چار مہینہ تک جاری رہا۔ مختار ہر روز اپنے رسالے کے ساتھ قصر میں سے برآمد ہوتا اور محاصرین سے دو دو ہاتھ کر کے واپس جاتا۔ محصورین کی حالت دن بدن نازک ہونے لگی۔ یہ دیکھ کر وہ اہل شہر بھی جو اس خود ساختہ نبی کے مخالف تھے دلیر ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب کبھی مختار کے سوار محاصرین پر حملہ کرنے کو قصر سے نکلتے، مکانوں کی چھتوں سے ان پر اینٹیں، پتھر، کیچڑ اور غلیظ پانی ڈالا جاتا۔ محاصرین نے سامان رسد کی آمد بالکل مسدود کر رکھی تھی۔ اسلئے محصورین کی حالت سخت زبوں ہوگئی۔
مختار کی ہلاکت
جب محاصرہ کی سختی ناقابل برداشت ہوگئی تو مختار نے اپنے دام افتادوں سے کہنے لگا یاد رکھو کہ محاصرہ جس قدر طویل ہوگا تمہاری طاقت جواب دیتی جائے گی۔ اس لئے بہتر ہے کہ باہر کھلے میدان میں داد شجاعت دیں اور لڑتے لڑتے عزت سے جانیں دے دیں اوراگر تم بہادری سے لڑو تو میں اب بھی فتح کی طرف سے مایوس نہیں ہوں۔ لیکن انہوں نے باہر نکل کر مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا۔ البتہ اٹھارہ آدمیوں نے رفاقت اور جانبازی پر آمادگی ظاہر کی۔ اب مختار خوشبو اور عطر لگا کر باہر نکا اور اٹھارہ آدمیوں کی رفاقت میں مقابلہ شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر میں تمام ساتھی طعمۂ اجل ہوگئے۔ آخر مختار خود بھی ان مقتولوں کے ڈھیر پر ڈھیر ہورہا۔
اب بصری فوج نے مختاریوں کو پابجولاں باہر نکالا اور مصعب نے سب کے قتل کا حکم دیا۔ چنانچہ سب کے سب نہنگ شمشیر کے حوالے کئے گئے۔ مقتولوں کی تعداد چھ ہزار تھی۔ مصعب کے حکم سے مختار کے دونوں ہاتھ کاٹ لئے گئے اور مسجد کے پاس کیلوں سے ٹھونک کر تشہیر کے لئے نصب کر دئیے گئے۔ مصعب نے مختار کی بیوی عمرہ بنت نعمان سے پوچھا کہ مختار کے دعوائے نبوت کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔ اس نے کہا وہ خدا کا نبی تھا۔ اس جواب پر مصعب نے اسے قیدخانہ