حرف آغاز
خدائے برتر کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے اس کتاب کی اشاعت ثانی کی توفیق بخشی۔ پہلے ایڈیشن میں بے شمار خامیاں رہ گئی تھیں۔ کتابت اور طباعت بھی معیار کے مطابق نہیں تھی۔ لیکن ان تمام نقائص کے باوجود عوام نے اسے بے حد پسند کیا ہے جس کے لئے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ دوسرے ایڈیشن میں بعض غیرضروری حصے حذف کر دئیے گئے ہیں اور ان کی جگہ چند اور پہلو شامل کئے گئے ہیں۔ قارئین میں سے بیشتر نے حوصلہ افزا خطوط لکھے ہیں۔ ان کی اس حوصلہ افزائی کے لئے تہ دل سے ممنون ہوں، ان میں سے بعض نے اپنی قیمتی ہدایات سے بھی نوازا ہے۔ سو ان کی ان نوازشات کے پیش نظر ترامیم کر دی گئی ہیں۔ بہت سے کرم فرماؤں نے گالیاں بھی لکھ بھیجی ہیں۔ میں ان کی گالیوں سے بہت لطف اندوز ہوا۔ مجھے رہ رہ کر خیال آیا کہ میرے آقا ومولا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو ابوجہل اور ابولہب نے کیا کم گالیاں دی تھیں۔ جب دشمنان اسلام محبوب خداﷺ کو گالیاں دینے سے باز نہیں آئے تو میری حیثیت ہی کیا ہے؟ میں تو اس آمنہؓ کے لال کی خاک پاکے برابر بھی نہیں۔ میرے آقا کا نمونہ یہ تھا کہ آپﷺ نے مخالفین کی گالیاں سنیں لیکن جواب نہیں دیا۔ اظہار برہمی بھی نہیں کیا۔ چشم غضب ناک سے بھی نہیں دیکھا۔ بددعا نہیں کی اور نہ ہی اپنے لبوں تک شکوہ، گلہ آنے دیا ہے بلکہ دشنام طرازی کی انتہاء کرنے والوں کے لئے درددل سے دعائیں کی ہیں۔ ان کا ہمیشہ بھلا چاہا ہے… مگر… میں اپنے ان کرم فرماؤں سے کیا کہوں۔ خود انہی کے مرزاغلام احمد کا ایک مصرع رقم کئے دیتا ہوں۔ جو انہوں نے اپنے اور اپنے مریدان باصفا کے لئے موزوں کیا تھا ؎
گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو
(درثمین اردو ص۸۴)
اے کاش مجھے ’’مرتد، بے دین اور کافر‘‘ کا خطاب دینے سے قبل میرے محترم بزرگ اپنے گریبان میں جھانک لیتے کہ جس بات کا گلہ وہ کسی سے کر رہے ہیں۔ اس پر ان کا اپنا عمل بھی ہے یا نہیں؟ ان کرم فرماؤں سے مجھے صرف اس قدر استفسار کرنا ہے کہ میری اس کتاب کے ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے انہیں جس نبوت کے برباد اور تباہ ہونے کا خوف دامنگیر ہوگیا ہے اور انہوں نے اس نبوت سے وابستگیٔ خلوص کا اظہار کر کے مجھے جو بے نطق سنائی ہیں تو کیا انہوں نے اس مضحکہ خیز پہلو پر غور نہیں کیا کہ ان کو خود اس نبوت کے متعین کئے ہوئے اصولوں میں کتنا دخل