۶… بیان بن سمعان تمیمی
بیان بن سمعان تمیمی، مغیرہ بن سعید عجلی کا معاصر تھا۔ دونوں ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے تھے۔ فرقۂ بیانیہ جو غلاّۃ روافض کی ایک شاخ ہے اسی بیان کا پیرو ہے۔ نبوت کا مدعی تھا۔ کہا کرتا تھا کہ میں اسم اعظم جانتا ہوں اور اس کے ذریعہ زہرہ کو بلا لیتاہوں اور لشکروں کو منہزم کرسکتا ہوں۔ ہزاروں انسان نما ڈھور خوش اعتقادی کے سنہری جال میں پھنس کر اس کی نبوت کے قائل ہوگئے۔ اس نے امام محمد باقرؒ جیسی جلیل القدر ہستی کو بھی اپنی نبوت کی دعوت دی تھی اور اپنے خط میں جو عمر بن عفیف کے ہاتھ امام ممدوح کو بھیجا، لکھا تھا کہ میری نبوت پر ایمان لاؤ تو سلامت رہو گے اور ترقی کروگے۔ تم نہیں جانتے کہ خدا کس کو نبوت پر سرفراز فرماتا ہے۔
بیان کو اس کے اس دعوے کی وجہ سے بیان کہتے تھے کہ مجھے قرآن کا صحیح ’’بیان‘‘ سمجھایا گیا ہے اور آیات قرآنی کا وہ مطلب ومفہوم نہیں جو عوام سمجھتے ہیں۔ عوام سے اس کی مراد علمائے اسلام تھے۔ اس قسم کا دعویٰ کچھ بیان پر موقوف نہیں تھا۔ بلکہ ہر جھوٹا مدعی خود مصیب وحق پرست بنتا اور حاملین شریعت کو خطاکار بتایا کرتا ہے۔
اوپر لکھاگیا کہ خالد بن عبداﷲ قسری عامل کوفہ نے مغیرہ عجلی کونذرآتش کر دیا تھا۔ بیان بھی اسی وقت گرفتار کر کے کوفہ لایا گیا تھا۔ جب مغیرہ جل کر خاک سیاہ ہوگیا تو خالد نے بیان کو بھی حکم دیا کہ سرکنڈوں کا ایک گٹھا تھام لے۔ چونکہ وہ دیکھ چکا تھا کہ مغیرہ کو گٹھا نہ اٹھانے پر مار پڑی تھی۔ فوراً لپک کر ایک گٹھا بغل میں لے لیا۔ خالد نے کہا تمہیں دعویٰ ہے کہ تم اپنے اسم اعظم کے ساتھ لشکروں کو ہزیمت دیتے ہو۔ اب یہ کام کرو کہ مجھے اور میرے عملہ کو جو تیرے درپئے قتل ہیں ہزیمت دے کر اپنے آپ کو بچا لو۔ مگر جھوٹا تھا۔ لب کشائی نہ کر سکا۔ آخر مغیرہ کی طرح اس کو بھی جلا کر بے نشان کر دیا گیا۔ (تاریخ طبری ج۸ ص۴۴۱، کتاب الفرق ص۲۲۸)
۷… ابومنصور عجلی
ابتداء میں حضرت امام جعفر صادقؒ کا معتقد اور اہل غلو میں سے تھا۔ جب امام ہمامؒ نے اسے مارقانہ عقائد کی بناء پر اپنے ہاں سے خارج کر دیا تو اس نے دعوائے امامت کی ٹھان لی۔ چنانچہ اخراج کے چند روز بعد یہ کہنا شروع کیا کہ میں امام محمد باقر کا خلیفہ وجانشین ہوں۔ ان کا درجہ امامت میری طرف منتقل ہوگیا ہے۔ یہ شخص اپنے تئیں خالق بیچوں کا ہم شکل بتاتا تھا۔ اس کا بیان تھا کہ امام محمد باقرؒ کی رحلت کے بعد آسمان پر بلایا گیا اورمعبود برحق نے میرے سرپر ہاتھ پھیر کر فرمایا