بادشاہت یا خلافت
ایک سیاسی جماعت پر حکمرانی کرنے والے کا نام بادشاہ ہو یا خلیفہ۔ نام اس کا خواہ کچھ دیا جائے مفہوم کے اعتبار سے یہ دونوں الفاظ خاص امتیاز رکھتے ہیں۔ ابتدائے آفرنیش سے خلیفہ اور بادشاہ کے دو علیحدہ علیحدہ مفہوم رہے ہیں۔ خلیفہ مذہبی اور بادشاہ سیاسی یا ملکی رہنما کو کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بادشاہت کو مذہبیت کا لبادہ پہنا کر اس کا نام خلافت رکھ لے تو ہمیں اسے بادشاہ ہی سمجھنا پڑے گا۔ میں اس سے قبل ثابت کر چکا ہوں کہ یہ جماعت سیاسی ہے۔ اس اعتبار سے بھی یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی کہ اس کا حکمران بادشاہ ہے یا خلیفہ؟ کیونکہ جب ایک جماعت سیاسی ہے تو اس کا حکمران چاہے اپنے آپ کو خلیفہ کہے، بادشاہ ہی متصور ہوگا۔ لیکن اس سیدھے سادھے استدلال کے باوصف حسب ذیل امور غور طلب ہیں۔
ابن سعد نے سلمانؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمرؓ نے سلمانؓ سے دریافت کیا کہ میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ۔ حضرت سلمانؓ نے جواب دیا کہ اگر آپ مسلمانوں سے ایک درہم بھی وصول کر کے بے جا خرچ کریں تو آپ بادشاہ ہیں۔ ورنہ آپ خلیفہ ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اس سے نصیحت پکڑ لی۔
مندرجہ بالا حدیث میں دو باتیں قابل غور ہیں۔ اوّل یہ کہ حضرت عمرؓ تکبر ونخوت کی بجائے جمہوری طریق کار کو پسند کرتے تھے اور دوسرے یہ کہ بادشاہت اور خلافت کی تعریف حضرت عمرؓ کے نزدیک کیا تھی۔ حضرت عمرؓ کا یہ سوال کرنا کہ میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ؟ اپنی جگہ پر خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خلیفہ تھے۔ کیونکہ کوئی بادشاہ بھی اپنی ذات سے متعلق کسی دوسرے شخص سے کسی قسم کا مشورہ لینا جائز نہیں سمجھتا۔ لہٰذا ان کی جمہوریت پسندی اسی سے ظاہر ہے کہ انہوں نے خود اپنے متعلق دوسروں سے استفسار کیا اور تنقید وتبصرہ کو اپنی ذات کے لئے بہت پسند فرمایا۔ حضرت سلمانؓ نے بادشاہت اور خلافت کی جو تعریف کی اس میں بادشاہت کے لئے بیت المال سے بے جا مصرف کو ضروری قرار دیا اور خلیفہ کے لئے بیت المال کے روپیہ کو دیانت اور ایمانداری سے خرچ کرنا خلافت کی بنیاد ٹھہرایا۔ حضرت سلمانؓ نے جب خلافت اور بادشاہت کی یہ تعریف کی تو حضرت عمرؓ نے اسے بے حد پسند فرمایا اور اس پر مزید عمل پیرا ہونے کی سعی وجہد کی۔ اس طرح سفیان بن ابی العرجاء سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ بن خطاب نے ایک روز فرمایا کہ واﷲ میں نہیں جانتا کہ میں خلیفہ ہوں یا بادشاہ۔ اگر میں بادشاہ ہوں تو بہت بڑا بوجھ ہے۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے جواب دیا یا امیر المؤمنینؓ! خلیفہ اور بادشاہ میں بہت فرق ہے۔ آپ نے فرمایا