کہ بیٹا! لوگوں کے پاس میرا پیغام پہنچا دے۔
ابومنصور اس امر کا بھی قائل تھا کہ نبوت حضرت خاتم الانبیائﷺ کی ذات گرامی پر ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ رسول اور نبی قیامت تک مبعوث ہوتے رہیں گے۔ ابومنصور کی یہ بھی تعلیم تھی کہ جو کوئی امام تک پہنچ جاتا ہے اس سے تمام تکلیفات شرعیہ اٹھ جاتے ہیں اور اس کے لئے شریعت کی پابندی لازم نہیں رہتی۔ اس کا بیان تھا کہ جبرائیل امین نے پیغام رسانی میں خطا کی۔ بھیجا تو انہیں حضرت علیؓ کے پاس تھا لیکن وہ غلطی سے محمد مصطفیﷺ کو پیغام الٰہی پہنچا گئے۔ (غنیۃ الطالبین) اس فرقے کے کسی شاعر نے کہا ہے ؎
جبریل کہ آمد زبر خالق بے چوں
درپیش محمد شد و مقصود علی بود
کہا کرتا تھا کہ قیامت اور جنت ودوزخ کچھ بھی نہیں۔ یہ محض ملاؤں کے ڈھکوسلے ہیں۔ جب یوسف بن عمر ثقفی کو جو خلیفہ ہشام بن عبدالملک کی طرف سے عراق کا والی تھا ابومنصور کی تعلیمات کفریہ کا علم ہوا اور دیکھا کہ اس کی وجہ سے ہزارہا بندگان خدا تباہ ہورہے ہیں تو اس کو گرفتار کر کے کوفہ میں سولی چڑھا دیا۔ (الفرق بین الفرق، الملل والنحل شہرستانی)
۸… بہافرید نیشاپوری
ابومسلم خراسانی کے عہد دولت میں جو خلافت آل عباسؓ کا بانی تھا، بہا فرید نام ایک شخص سیراوند نامی ایک قصبہ میں جو ضلع نیشاپور میں سے ظاہر ہوا، نبوت ووحی کا مدعی تھا۔ دعوائے نبوت کے تھوڑی مدت بعد چین گیا اور وہاں سات سال تک مقیم رہا۔ مراجعت کے وقت دوسرے چینی تحائف کے علاوہ سبز رنگ کی ایک نہایت باریک قمیص بھی ساتھ لایا۔ اس قمیص کا کپڑا اس قدر باریک تھا کہ قمیص آدمی کی مٹھی میں آجاتی تھی۔ چونکہ اس زمانہ تک لوگ زیادہ باریک کپڑوں سے روشناس نہ ہوئے تھے۔ بہا فرید نے اس قمیص سے معجزہ کا کام لینا چاہا۔
چین سے واپس آکر رات کو وطن پہنچا۔ کسی سے ملاقات کئے بغیر رات کی تاریکی میں سیدھا مجوس کے مندر کا رخ کیا اور مندر پر چڑھ کر بیٹھ رہا۔ جب صبح کے وقت پجاریوں کی آمدورفت شروع ہوئی تو آہستہ آہستہ لوگوں کے سامنے نیچے اترنا شروع کیا۔ لوگ یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے کہ سات سال تک غائب رہنے کے بعد اب یہ بلندی کی طرف سے کیونکر آرہا ہے۔
لوگوں کو متعجب دیکھ کر کہنے لگا حیرت کی کوئی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خداوند عالم نے مجھے آسمان پر بلایا تھا۔ میں برابر سات سال تک آسمانوں کی سیروسیاحت میں مصروف رہا۔