کا قتل کسی طرح روا نہیں ہے۔ لیکن وہ ہر مرتبہ اپنے اقرباء کے بیان کی تردید کر دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں جوہر عقل سے پوری طرح آراستہ ہوں۔ مجھے جلد قتل کرو کہ قتل ہی سے حیات ابدی ملتی ہے۔ مگر محمد علی واقعی احمق تھا جو ایک مہدی کذاب کے پیچھے ہلاک ہونے میں حیات ابدی کا امیدوار تھا۔ محمد علی ایک ہی گولی سے ٹھنڈا ہوگیا۔
باب بھی باندھا گیا اور حمزہ مرزا گورنر آذربائیجان نے ارمن سپاہیوں کو جو عیسوی المذہب تھے حکم دیا کہ اس پر باڑھ مارو۔ یہ لوگ بابیوں کے من گھڑت قصوں سے متاثر تھے۔ انہوں نے گولیاں ہوا میں چلا دیں۔ باب حاضرین سے مخاطب کر کے کہنے لگا کیا تم میری کرامت دیکھتے ہو کہ گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی مگر میرے کوئی گولی نہیں لگی۔ ایک گولی اسی رسی کو جا لگی تھی جس سے باب باندھا ہوا تھا۔ اس سے وہ رسی ٹوٹ گئی۔ باب کھل کر بھاگا اور ایک سپاہی کی کوٹھری میں جا چھپا اور مکرر کہنا شروع کیا۔ لوگو! یہ میری کتنی بڑی کرامت ہے کہ کوئی گولی نہ لگی بلکہ میں الٹا رہا ہوگیا۔ اس وقت سینکڑوں غیربابی جہلاء غل مچارہے تھے کہ باب پر گولیوں کا اثر نہیں ہوا۔ یہ دیکھ کر سپاہیوں نے حاکم کے ایماء سے باب کو جاپکڑا اور چند گھونسے رسید کر کے گولی کا نشانہ بنادیا۔
(مذاہب سلام بحوالہ ناسخ التواریخ)
۲۳… ملا محمد علی بارفروشی
ملا محمد علی بارفروشی جسے بابی لوگ قدوس کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ مرزا علی محمد باب کا سب سے بڑا خلیفہ تھا۔ مقام قدوسیت اور رجعت رسول اﷲﷺ کا مدعی تھا۔ رجعت رسول اﷲ سے اس کی یہ مراد تھی کہ آنحضرتﷺ ازسرنو دنیا میں تشریف لاکر (معاذ اﷲ) بارفروشی کے پیکر میں ظاہر ہوئے ہیں۔ اس بارہ میں غلام احمد قادیانی نے ملا بارفروشی کے چبائے ہوئے لقمے کو اپنے خوان الحاد کی زینت بنایا تھا۔ چنانچہ قادیانی نے ۵؍نومبر ۱۹۰۱ء کے اشتہار میں لکھا کہ میں بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں۔ خدا نے ’’براہین احمدیہ‘‘ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا اور مجھے آنحضرت کا ہی وجود قرار دیا۔ پس اس طرح آنحضرتﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ محمد کی نبوت محمد تک ہی محدود رہی۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۲۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۳۷)