اس سے شہادت لی جاتی اور بعد ثبوت ولایت ووراثت اس کے حوالے کر دیا جاتا۔
(تاریخ ابن خلدون، کامل ابن اثیر، کتاب الفرق بین الفرق)
۱۳… علی بن محمد ازاراقی
علی بن محمد موضع دردیفن مضافات رے میں پیدا ہوا۔ مذہباً خوارج کے فرقہ ازاراقہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتداء میں وجہ معاش یہ تھی کہ خلیفہ منتصر عباسی کے بعض حاشیہ نشینوں کی مدح وتوصیف میں قصیدے لکھ کر کچھ انعام حاصل کر لیتا تھا۔ ۲۴۹ھ میں بغداد سے بحرین گیا اور دعوائے نبوت کر کے اغوائے خلق میں مصروف ہوا۔ کہتا تھاکہ مجھ پر بھی کلام الٰہی نازل ہوتا ہے۔ اس نے اپنا ایک صحیفہ آسمانی بنا رکھا تھا۔ جس کی بعض سورتوں کے نام سبحان، کہف اور ص وغیرہ تھے۔ کہتا تھا کہ خدائے برتر نے میری امامت ونبوت کی اتنی نشانیاں ظاہر کی ہیں جو حدوحصر سے خارج ہیں۔ بحرین کے اکثر قبائل نے اس کی متابعت اختیار کی۔ اس شخص نے ۲۵۲ھ سے لے کر ۲۷۰ھ تک اٹھارہ سال کا طویل زمانہ عالم اسلام میں بڑی دھما چوکڑی مچا رکھی تھی۔
حبشی غلاموں کو اپنے جھنڈے تلے جمع کرنے کی عجیب چال
قریباً پانچ سال تک تحریک میں اقامت گزیں رہنے کے بعد ایک دن اپنے دام افتادوں سے کہنے لگا کہ مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ یہاں سے بصرہ جاؤں اور وہاں کے لوگوں کو نجات اخروی کا راستہ دکھاؤں۔ چنانچہ چند پیروؤں کی معیت میں بصرہ چلا آیا۔ بصرہ میں وہ ایک عجیب چال چلا۔ اس نے اپنی قوت وجمعیت کو غیرمعمولی ترقی دینے کے لئے اعلان کیا کہ جو جو حبشی غلام میری پناہ میں آجائیں گے میں ان کو آزاد کردوںگا۔ اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ حبشی غلام اطراف واکناف ملک سے بھاگ بھاگ کر اس کے پاس آنے شروع ہوئے۔ اس طرح ایک جم غفیر جمع ہوگیا۔ اس نے ایک پرجوش تقریر کر کے ان کو ملک ومال سے بہرہ مند کرنے کا یقین دلایا۔ حسن سلوک اور احسان کرنے کی قسم کھائی۔ ایک ریشمیں ٹکڑے پر ’’ان اﷲ اشتریٰ من المؤمنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ‘‘ لکھ کررایت بنایا اور ایک بلند مقام پر نصب کرادیا۔
غلاموں کا آقاؤں کو مارنا اور قید کرنا
اس اقدام سے زنگی غلاموں کے آقاؤں کا رنگ پتلا پڑ گیا۔ آقا ایک ایک دو دو کر کے اپنے غلاموں کی نسبت کہنے سننے کو آئے۔ علی نے اشارہ کردیا۔ زنگی غلاموں نے اپنے آقاؤں کو مارنا اور قید کرنا شروع کیا۔ شرفائے بصرہ یہ رنگ دیکھ کردم بخود رہ گئے۔ آخر علی نے ان تمام