سے بغاوت جاری رکھی۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۲۴ئ)
مگر یہ بیان سراسر جہالت وکوری اور ابلہ فریبی ہے۔ حارث کذاب نے حکومت کے خلاف بغاوت میں حصہ نہیں لیا تھا۔ باوجود اس کے خلیفہ وقت نے اس کو محض دعوائے نبوت کے جرم میں اپنے سامنے قتل کراکے اس دینی فتنہ کا سدباب کر دیا۔
۵… مغیرہ بن سعید عجلی
مغیرہ بن سعید عجلی پہلے امامت کا اور پھر نبوت کا مدعی ہوا۔ کہا کرتا تھا کہ میں اسم اعظم جانتا ہوں اوراس کی مدد سے مردوں کو زندہ اور لشکروں کو منہزم کر سکتاہوں۔ جب خالد بن عبداﷲ قسری کو جو خلیفہ ہشام بن عبدالملک کی طرف سے حاکم عراق تھا مغیرہ کے دعوائے نبوت کا علم ہوا تو ۱۱۹ھ میں اس کی گرفتاری کا حکم دیا۔ اس کے چھ مرید بھی پکڑے آئے۔ خالد نے مغیرہ سے دریافت کیا کہ کیا تونے نبوت کادعویٰ کیا ہے۔ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر اس کے مریدوں سے پوچھا کہ کیاتم لوگ اس کو نبی یقین کرتے ہو۔ انہوں نے بھی اس کا اقرار کیا۔
زندہ نذر آتش
خالد نے مغیرہ کو دعوائے نبوت کی وہ بڑی سے بڑی سزا دی جو اس کے مخیلۂ دماغ میں سما سکی۔ اس کے لئے سرکنڈوں کے گٹھے اور نفظ منگوایا۔ خالد نے مغیرہ کو حکم دیا کہ ایک گٹھے کو اٹھالے۔ مغیرہ اس سے رکا اور ہچکچایا۔ خالدنے حکم دیا کہ اس کو مارو۔ معاً مار پڑنے لگی۔ مغیرہ نے گھبرا کر ایک گٹھا اٹھالیا۔ اب اس کو اس گٹھے سے باندھ دیا گیا۔ اب اس پر اور گٹھے پر روغن نفظ ڈال کر اس کو آگ دکھا دی گئی اور مغیرہ تھوڑی دیر میں جل کر راکھ کا ڈھیر ہوگیا۔
(الفرق بین الفرق مطبوعہ مصر ص۴۲۴)
مرزائیوں کے لئے سامان عبرت
معلوم نہیں اس کے مریدوں کو بھی یہی وحشیانہ سزا دی گئی یا کسی اور طریقہ سے ان کی جان لی گئی۔ مرزائیوں نے بھی ایک ایسے شخص کو جس کا کریکٹر عام بازاری لوگوں سے بھی بہتر نہ تھا خدا کا نبی تجویز کر رکھا ہے۔ انہیں ان واقعات سے عبرت پذیر ہونا چاہئے۔ مغیرہ نے حکومت کے خلاف باغیانہ خیالات کو ہرگز دل میں جگہ نہیں دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اسے نظر انداز نہ کیاگیا۔ اگر مرزاغلام احمد قادیانی انگریز کے ظل عاطفت کی بجائے کسی اسلامی عملداری میں ہوتا تو اس کا اور اس کو نبی ماننے والوں کا بھی یہی حشر ہوتا جوحارث کذاب اور مغیرہ کا ہوا۔