چنانچہ ان کے مرید بھی جہاں کہیں لکھتے ہیں یہی کہتے ہیں کہ: ’’ہم حضور کی اطاعت میں نجات تصور کرتے ہیں۔‘‘
حالانکہ سرور کائناتﷺ کی اطاعت میں نجات قرار دی گئی ہے۔ قرآن مجید کی ایک ایک آیت حضور پر نازل ہوئی اور اﷲتعالیٰ نے ہر جگہ اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیﷺ کی اطاعت کو انسانوں کی نجات کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔ لیکن مینڈکی کو خواہ مخواہ زکام ہوا چاہتا ہے۔
الغرض انہوں نے ساری زندگی ’’میں،میں‘‘ میں گذاردی اور اپنے منہ میاں مٹھو بن کر ہزاروں انسانوں کو بے وقوف بنایا اور آج تک بنا رہے ہیں اور اس وقت تک اپنا فرض ادا کرتے چلے جائیں گے۔ جب تک کہ موت کا فرشتہ ان کی روح قبض نہ کر لے۔ فرعون کی سوانح حیات کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اتنی ’’میں، میں‘‘ اس نے بھی نہ کی تھی بلکہ انہوں نے تو فرعون کو بھی مات کر دیا ہے۔
مسئلہ تکفیر
۱۹۱۴ء میں مسند خلافت پر متمکن ہونے والے اس سیاستدان نے شطرنج کا نقشہ سامنے رکھا اور اپنی خلافت کی بنیادیں استوارکرنی شروع کردیں۔ چنانچہ انہوں نے محسوس کیا کہ اگر ان کے مرید دوسرے مسلمانوں سے متعلق رہے اور اگر ان کے درمیان دیوار حائل نہ کی گئی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان کے مریدوں کے دلوں میں خلافت مآب کی قدرومنزلت قائم نہ ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مریدوں کو دوسرے مسلمانوں سے بالکل جدا رکھنے کی سعی وجہد شروع کی اور اس کے لئے جہاں متعدد دوسرے اقدامات کئے وہاں ایک قدم یہ بھی اٹھایا کہ مسلمانوں کو کافر قرار دیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’ہم منکرین مسیح موعود کو اس لئے کافر سمجھتے ہیں کہ حضور نبی تھے اور نبی کا منکر کافر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ واحد دلیل ہے جسے احمدیہ عقائد میں روز ازل سے پیش کیاگیا ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۳؍فروری ۱۹۳۷ئ)
ان سطور میں صاف الفاظ میں منکرین مرزاقادیانی کو کافر کہاگیا ہے اور اس عقیدہ کو روز ازل سے اپنی جماعت کا عقیدہ کہا ہے۔ پھر لکھتے ہیں: ’’جو شخص غیراحمدی کو رشتہ دیتا ہے وہ یقینا حضرت مسیح موعود کو نہیں سمجھتا اور نہ یہ جانتا ہے کہ احمدیت کیا چیز ہے۔ کیا کوئی غیراحمدیوں میں ایسا بے دین ہے جوکسی ہندو یا کسی عیسائی کو اپنی لڑکی دے۔ ان لوگوں کو تم کافر کہتے ہو… مگر تم احمدی کہلا کر کافر کو رشتہ دیتے ہو۔‘‘ (ملائکۃ اﷲ ص۴۶)